”نہ بچ سکیں گے کبھی زیست کے عذاب سے ہم “ حفیظ احمد کی ”محبت کی بازیافت“ سے انتخاب

نہ بچ سکیں گے کبھی زیست کے عذاب سے ہم
طلسمِ وہم سے، امید کے سراب سے ہم​
ڈرے کچھ ایسے حقیقت کے دشت سے کہ کبھی
چمکتے دن میں بھی نہ نکلے شہرِ خواب سے ہم​
ہوا نے گرد میں تحلیل کر دیا ورنہ
غرورِ نغمہ تھے نکلے تھے جب رباب سے ہم​
وہ اپنی ضد میں اٹل ہیں ہم اپنی فطرت میں
وہ برف زار سے ہیں اور آفتاب سے ہم​
جو دل میں ہے وہ نگاہوں سے پڑھ لیا اُس نے
ہوس چھپاتے تھے الفاظ کے نقاب سے ہم​
سلگ رہی ہے ابھی دل میں درد کی پرچھائیں
پٹخ رہے ہیں ابھی سر کو اضطراب سے ہم​
کھلی کتاب تھی دنیا نہ پڑھ سکے ہم ہی
نظر چُراتے رہے ہیں ہر ایک باب سے ہم​
 

محمداحمد

لائبریرین
کھلی کتاب تھی دنیا نہ پڑھ سکے ہم ہی
نظر چُراتے رہے ہیں ہر ایک باب سے ہم
خوبصورت انتخاب پیش کرنے کا بہت شکریہ محترم
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top