”بِلا عنوان“

سعادت

تکنیکی معاون
میرے ”ریٹائرڈ“ بلاگ کے آرکائیو میں سے ایک افسانہ آپ سب کی نذر۔ :) (۲۲ نومبر، ۲۰۰۶ء کو لکھا گیا۔)

”بِلا عنوان“

کافی کا ایک اور گھونٹ لینے کے بعد اُس نے کپ میز پر رکھا اور اُس میں سے اٹھتی بھاپ کو دیکھنے لگا۔

کیفے کے باہر سورج آہستہ آہستہ مغرب میں اتر رہا تھا۔ چند گھنٹوں پہلے ہونے والی بارش نے جہاں موسم کی خوبصورتی میں اضافہ کیا تھا، وہاں سرد ہواؤں کی شدت کو بھی دُگنا کر دیا تھا۔ موسم کی یہی خنک دلکشی اُسے اپنے اپارٹمنٹ سے باہر کھینچ لائی تھی۔ ایک ہلکا سا سویٹر اور جِینز اپنے بدن پر چڑھائے وہ کچھ دیر تک فُٹ پاتھوں پر آوارہ گردی کرتا رہا تھا اور پھر اُس کیفے میں آ گیا تھا۔

”سر!“ کیفے کا مالک اُسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کا مستقل گاہک بس آنے ہی والا ہے۔ موسم ہی کچھ ایسا تھا۔

اپنی مخصوص میز پر بیٹھنے کے بعد اُس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تھی۔ کیفے کی گلاس کی دیواریں باہر موجود زندگی کو اندر بیٹھے ناظرین کے لیے گویا پینٹ کر رہی تھیں: وہی لمبی سی دو رویہ سڑک۔ سڑک کے گرد موجود وہی فُٹ پاتھ۔ فُٹ پاتھوں کے کنارے لگے وہی گھنے درخت۔ اُن درختوں سے گرتے، سردیوں کا استقبال کرتے وہی پتّے۔ اور اُن پتّوں پر چلتے ہوئے وہی لوگ۔

اُس نے کافی کے کپ سے اُٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھا۔ ایک خم دار، اَن دیکھے راستے پر چلتی ہوئی وہ بھاپ اسے کچھ کہتی محسوس ہو رہی تھی۔

”اگلا افسانہ کب لکھ رہے ہیں سر؟“ کیفے کا مالک پوچھ رہا تھا۔ اُس نے مسکرا کر کافی کا ایک اور گھونٹ لیا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ کیفے کا مالک ہنسا اور ایک دوسری میز کی جانب بڑھ گیا۔

کچھ دیر پہلے جب وہ باہر فُٹ پاتھ پر بکھرے گیلے پتّوں پر چل رہا تھا تو یہی سوال اُس کے اپنے ذہن میں بھی ابھرا تھا۔ ”مجھے اِن پتّوں پر کچھ لکھنا چاہیے۔“ اُس نے سوچا تھا۔ ”لیکن کیا فائدہ؟ لا تعداد ادیب، شاعر، اور مصوّر اِن پتّوں پر نجانے کِن کِن زاویوں سے طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ شاید یہ پتّے بھی اب تک افسانوں، نظموں، اور تصویروں کا موضوع بن بن کر تنگ آ چکے ہوں۔“

وہ اپنی اِس سوچ پر خود ہی ہنسا تھا۔

”شاید مجھے اِسی موضوع پر لکھنا چاہیے کہ یہ پتّے کِس کِس طرح استعمال ہوتے رہے ہیں۔“ اپنے ہاتھوں کو جِینز کی جیبوں میں اُڑستے ہوئے اُس نے ایک لمحے کو رک کر فُٹ پاتھ پر بکھرے پتّوں کو دیکھا تھا۔ یوں جیسے اُن کی تائید چاہ رہا ہو۔

سورج مزید جُھک گیا تھا۔ وہ لمبی سی دو رویہ سڑک اب نارنجی سی روشنی میں نہا گئی تھی۔

کافی کا ایک اور گھونٹ لے کر اُس نے کیفے میں موجود لوگوں کو دیکھا۔ ایک کونے میں دو ٹِین ایجرز بیٹھے آئس کریم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کبھی کبھار زور سے قہقہہ لگا کر وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑتے۔ کیفے کا مالک بھی گاہے گاہے اُن پر نظر ڈال کر مسکرا رہا تھا۔

”جوانی!“ اُس کے ذہن میں فوراً عنوان آیا۔

ایک دوسری میز پر دو خواتین بیٹھی تھیں، ماں اور بیٹی۔ بیٹی نہایت پُر جوش انداز میں ماں کو کسی چیز کے بارے میں بتا رہی تھی اور ماں اپنے چہرے پر ایک شفیق سی مسکراہٹ لیے اُسے سُن رہی تھی۔ جب کبھی اُن ٹِین ایجر لڑکوں کا قہقہہ بیٹی کی روانی میں خلل ڈالتا تو وہ ماتھے پر بَل ڈال کر اُنہیں گھورتی۔ ماں کی مسکراہٹ گہری ہو جاتی۔

”بے تابی!“ اُس کے ذہن میں ایک اور عنوان گونجا۔

بائیں جانب درمیانی عمر کے دو میاں بیوی بیٹھے تھے۔ ایک ہی پلیٹ سے رُوسی سلاد کھاتے ہوئے وہ مستقل مسکرا رہے تھے۔ بیوی کبھی کبھار دھیرے سے ہنس بھی پڑتی، اور شوہر اُس لمحے نظر بھر کر بیوی کے ہنستے ہوئے چہرے کو دیکھتا۔ بیوی جواباً استفہامیہ انداز میں شوہر کی طرف دیکھتی، جس پر شوہر بھی ہنس کر نفی میں سر ہلاتا۔ پھر وہ دونوں باہر فُٹ پاتھ پر چلتے لوگوں کو دیکھنے لگتے۔

”ساتھ!“ ایک اور عنوان۔

کافی کی بھاپ اب اُس کے چہرے کے سامنے مختلف شکلیں اختیار کر رہی تھی۔ اُس نے اُن شکلوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی۔ اُسے کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ دھیرے سے مسکراتے ہوئے اُس نے اگلا گھونٹ لیا۔ بھاپ رقص کرتے ہوئے اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ ہر شَے دُھندلا گئی تھی۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

بند آنکھوں سے کیفے کا منظر زیادہ دلفریب تھا۔ گلاس کی دیواروں کے اُس پار سورج کا غروب مزید مسحور کُن ہو گیا تھا۔ فُٹ پاتھ پر بکھرے پتّے آپس میں سر گوشیاں کرتے اُس کی طرف اشارے کر رہے تھے۔ کیفے کا مالک اب کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں ٹِین ایجرز بھی خاموش ہو کر اُس کی طرف گھوم گئے تھے۔ بیٹی اپنی ماں کو اُسی کی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ میاں بیوی نے باہر چہل قدمی کرتے لوگوں کی بجائے اُس کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ اُن سب کی توجہ کو محسوس کرتے ہوئے گویا داد وصول کرنے لگا۔ وہ اِس داد کا مستحق جو تھا۔

پھر اُس نے اُسے دیکھا۔ کیفے کے دوسرے کونے میں بیٹھی، اپنے سامنے پڑی میز پر جھکی، تیزی سے کچھ لکھتی ہوئی، وہ آس پاس سے بالکل بے خبر تھی۔ اُس کا قلم بڑی روانی کے ساتھ سطر پر سطر لکھے جا رہا تھا اور اُس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ گویا اعلان کر رہی تھی کہ اُسے اپنی تحریر کے علاوہ اور کسی کی پروا نہیں ہے۔ وہ الجھ گیا۔ ”آخر یہ مجھے داد کیوں نہیں دے رہی؟“ وہ اُسی بے خبری کے ساتھ لکھتی رہی، اور وہ اُسی الجھن کے ساتھ اُسے دیکھتا رہا۔

کافی اب ٹھنڈی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بھاپ کی اشکال بھی معدوم ہو گئی تھیں جب اُس نے سر اٹھا کر اُس کی طرف دیکھا۔ وہ چونکا اور وہ مسکرائی۔ ”تم نے میرے لیے کوئی عنوان تجویز نہیں کیا۔“

اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ ”فریب!“

کیفے کے دوسرے کونے پر موجود میز خالی تھی۔ وہ اٹھ کر باہر چلا آیا۔
 
سعادت بھائی جان آپ نے خوب لکھا ۔واقعی ہماری زندگی میں ایسا روزانہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہر اس نگاہ سے نہیں دیکھتا جس نگاہ سے ایک تخلیق کار دیکھتا ہے ۔

آپ کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یاد آیا ۔اپنے ایک ناولٹ میں قراۃ العین نے دو لوگوں کی گفتگو کو کچھ اس انداز سے لکھا ہے ۔

تمہیں نیو یارک کی وہ طوفان رات یاد ہے جب برستی بارش میں تم میرے پاس آئی تھیں اور میں کچھ نہ کہہ سکا تھا ۔۔۔یاد ہے نا ۔۔۔میں نے اس طوفانی رات کا باب اپنے خون جگر سے لکھا ۔۔۔۔اس نے آہستہ سے کہا ۔

سیتا نے نفرت سے اس پر نظر ڈالی ۔۔تم زندگیوں سے اسی لئے کھیلتے ہو کہ بعد میں ان کے متعلق کامیاب ناول لکھ سکو ۔۔۔تم اٹلکچول لوگ دراصل کتنے بڑے فراڈ ہو ۔۔۔اس نے دل میں کہا ۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
شکریہ، نظامی۔ :)

سعادت بھائی جان آپ نے خوب لکھا ۔واقعی ہماری زندگی میں ایسا روزانہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہر اس نگاہ سے نہیں دیکھتا جس نگاہ سے ایک تخلیق کار دیکھتا ہے ۔

آپ کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد یاد آیا ۔اپنے ایک ناولٹ میں قراۃ العین نے دو لوگوں کی گفتگو کو کچھ اس انداز سے لکھا ہے ۔

تمہیں نیو یارک کی وہ طوفان رات یاد ہے جب برستی بارش میں تم میرے پاس آئی تھیں اور میں کچھ نہ کہہ سکا تھا ۔۔۔ یاد ہے نا ۔۔۔ میں نے اس طوفانی رات کا باب اپنے خون جگر سے لکھا ۔۔۔ ۔اس نے آہستہ سے کہا ۔

سیتا نے نفرت سے اس پر نظر ڈالی ۔۔تم زندگیوں سے اسی لئے کھیلتے ہو کہ بعد میں ان کے متعلق کامیاب ناول لکھ سکو ۔۔۔ تم اٹلکچول لوگ دراصل کتنے بڑے فراڈ ہو ۔۔۔ اس نے دل میں کہا ۔
شکریہ، علم۔ :) ”تم اٹلکچول لوگ دراصل کتنے بڑے فراڈ ہو“ — بڑا مزیدار جملہ ہے! یہ قرۃ العین حیدر کے کس ناولٹ میں سے ہے؟

شکریہ، ذیشان۔ :)
 
:)
شکریہ، علم۔ :) ”تم اٹلکچول لوگ دراصل کتنے بڑے فراڈ ہو“ — بڑا مزیدار جملہ ہے! یہ قرۃ العین حیدر کے کس ناولٹ میں سے ہے؟
آپ کے شکریے کا شکریہ بھائی جان ۔۔۔۔نام یاد نہیں ناولٹ کا ۔۔۔ہاں کتاب "چار ناولٹ "کے نام سے تھی ۔اور پہلے ناولٹ میں ہی تھا شاید ۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب
زندگی کے رنگوں کی بہت دلفریب عکاسی ۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
Top