’ میرے ساتھ دھاندلی ہوئی، مجھے انصاف چاہیے‘

’ میرے ساتھ دھاندلی ہوئی، مجھے انصاف چاہیے‘
رفعت اللہ اورکزئیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آج کل ضلعی ریٹرننگ افسر کے دفتر میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والوں امیدواروں کا تانتا باندھا ہوا ہے۔ یہاں آنے والا ہر امیدوار ایک ہی طرح کا شکوہ کر رہا ہے ’میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے، مجھے انصاف چاہیے۔‘ ضلع کچہری کی حدود میں واقع اس دفتر کے سامنے صبح سے لے کر شام تک لوگوں کی ایک ہجوم جمع رہتا ہے جس میں امیدواروں کے ساتھ ساتھ ان کے حامی بھی شامل ہیں۔
دو دن پہلے یہ تعداد اتنی زیادہ بڑھی گئی تھی کہ پولیس کو حالات پر قابو پانا مشکل ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور دفتر کے مرکزی گیٹ کو بند کرنا پڑا تھا۔
تاہم یہ سلسلہ پچھلے تین دنوں سے جاری ہے۔ ان امیدواروں میں ہارنے اور جیتنے والے دنوں طرح کے امیدوار شامل ہیں۔
ضلعی ریٹرننگ افسر کےدفتر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب تک سینکڑوں کی تعداد میں ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں امیدواروں کی جانب سے دھاندلی کی شکایات کی گئی ہیں۔ ہر درخواست کے ساتھ امیدواروں کی جانب سے دھاندلی کے ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ تاہم ہر شکایت پر کاروائی کرنا یا ان درخواستوں کو الیکشن ٹربینول میں بھیج دینا حکومت کے لیے یقیناً ایک مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے۔
150601203541_pakistani_presiding_officers_count_ballots_in_peshawar_o_624x351_afp.jpg

عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی انتخابات کو مسترد کیا ہے
ضلعی ریٹرننگ افسر کے دفتر کے علاوہ پشاور پریس کلب بھی سیاسی جماعتوں اور بلدیاتی چناؤ میں حصہ لینے والے امیدوراوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آج کل شاید ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہے جس میں کسی سیاسی جماعت نے دھاندلی کے خلاف کوئی احتجاج نہ کیا ہو یا امیدواروں نے پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے خطاب نہ کیا ہو۔
سرکاری طورپر بلدیاتی انتخابات کے اعلان میں ابھی مزید تین دن باقی ہیں لیکن اس سے پہلے ہی انتخابات کی حیثیت متنازع بنتی جارہی ہے۔ صوبے کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف ان انتخابات کو یکسر طورپر مسترد کردیا ہے بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کررہی ہیں۔
مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے ان انتخابات کی حیثیت اس وقت متنازع ہوگئی جب حکمران جماعت تحریک انصاف کے ساتھ خیبر پختونخوا حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد نے پولنگ کے دن دھاندلی کے سنگین الزامات لگائے اور نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرکے حکومت کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا جس پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔
لیکن اکثر مبصرین جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کی طرف سے دھاندلی سے متعلق بیانات پر تنقید بھی کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں لہذا محضٰ بیانات دینے سے وہ خود کو دھاندلی کے الزامات سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتی بلکہ باالفاظ دیگر وہ خود بھی اس دھاندلی میں برابر کے شریک ہیں۔ بالخصوص جماعت اسلامی زیادہ تنقید کی زد میں ہے کیونکہ خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات عنایت اللہ خان کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہیں۔
150530182637_kp_elections_640x360_afp.jpg

اکثر مبصرین جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد کی طرف سے دھاندلی سے متعلق بیانات پر تنقید بھی کررہے ہیں
ادھر حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی سنیچر کو ہونے والے انتخابات کو مسترد کیا ہے۔ اے این پی کے سربراہ اسنفدیار ولی خان نے پشاور میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران صوبائی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی انتخابات عبوری سیٹ اپ کے ماتحت کرانے چاہییں۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے مسلسل احتجاج اور بیانات سے صوبائی حکومت بھی اب بظاہر شدید دباؤ کا شکار نظر آتی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر دوبارہ انتخابات کا انعقاد کیا بھی جاتا ہے جس طرح تحریک انصاف کے سربراہ نے عندیہ بھی دیا تو وہ دوبارہ اسی صوبائی حکومت کے ماتحت ہوں گے؟
دوسری جانب یہ انتخابات انتہائی پرتشدد رہے اور اب تک 24 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور کیا صوبہ دوبارہ ایسے پرتشدد واقعات کا متحمل ہوسکتا ہے؟
خیبر پختونخوا میں یہ الزامات ایسے وقت سامنے آرہے ہیں جب جوڈیشنل کمیشن کی جانب سے سنہ 2013 کے عام انتخابات کے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ اگر یہاں پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ پورا نہیں کرتی تو اخلاقی طورپر جوڈیشل کمیشن کے تناظر ان کی پوزیشن بھی کمزور ہوسکتی ہے۔
 
2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے مجھے تو تحریک انصاف کے لئے یہ محاورہ یاد آرہا ہے،
"چور مچائے شور"
 
Top