منقب سید
محفلین
شمائلہ جعفری بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرگودھا
سرگودھا شہر کے وسط میں موجود ہسپتال کی عمارت کافی جدید ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا ہے
پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر سرگودھا سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک گاؤں چک تیس جنوبی کی رہائشی کوثر کی بیٹی کے یہاں دو ہفتے پہلے بچی کی پیدائش ہوئی۔
یہ بچی پیدا تو ایک پرائیویٹ کلینک میں ہوئی لیکن اسے پیدائش کے کچھ گھنٹے بعد انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال کی نرسری متنقل کیا گیا جہاں وہ کچھ روز بعد دم توڑ گئی۔
کوثر کہتی ہیں کہ جس رات ان کی نواسی مری اس کے چند گھنٹوں کے دوران نرسری میں سات اور بچے بھی ہلاک ہوئے۔
’رات کو ایک بجے ہم بچی کو نرسری میں دیکھنے گئے تو وہ بالکل نیلی ہوچکی تھی۔ ہم نے نرسروں کو بلایا کہ دیکھو اسے کیا ہوگیا ہے۔‘
حکومت پنجاب اربوں روپے میٹرو بس جیسے منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے لیکن مبصرین کے مطابق تعلیم اور صحت پر بجٹ بہت کم ہے
کوثر کے مطابق نرسوں نے بتایا کہ نرسری میں جگہ ہی نہیں اسے آ کسیجن کہاں سے لگائیں؟ اس کے بعد وہ بچی نرسری سے باہر لائیں تاکہ اسے آ کسیجن لگائی جاسکے لیکن اس وقت تک بچی ختم ہو چکی تھی۔
کوثر کا کہنا تھا کہ بعد میں ڈاکٹر آئے تو انھیں نرسری کے عملے نے بتایا کہ آ کسیجن ختم ہو چکی ہے۔
تھرپارکر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کی خبریں تو کئی دنوں سے میڈیا کی زینت بن رہی تھیں لیکن پنجاب کے نسبتاً ترقی یافتہ شہر میں ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں پیش آنے والے اس واقعے نے سب کو چونکا دیا۔
یہ پورے ڈویثرن کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں نوزائیدہ اور کمزور بچوں کے لیے باقاعدہ نرسری موجود ہے
سرگودھا شہر کے وسط میں موجود ہسپتال کی عمارت کافی جدید ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔
یہ پورے ڈوژن کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں نوزائیدہ اور کمزور بچوں کے لیے باقاعدہ نرسری موجود ہے۔
سرگودھا ڈوژن کی مجموعی آبادی 90 لاکھ سے زائد ہے۔
سرگودھا کے سرکاری ہسپتال میں ایک رات میں آٹھ ہلاکتوں کے بعد کئی دنوں تک نرسری میں زیرِ علاج مزید بچوں کی موت کی خبریں آتی رہیں اور کہا گیا کہ چند روز میں سرگودھا ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال میں 20 سے زائد بچے ہلاک ہوئے تاہم اب یہ تعداد رک چکی ہےاس کی وجہ کیا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سکندر وڑائچ نے بتایا ’ہسپتال کی نرسری میں 25 بچوں کی گنجائش ہے لیکن یہاں اکثر 25 سے زیادہ بچے زیر علاج رہتے ہیں۔ جس دن ہلاکتیں ہوئیں اس دن بھی 51 بچے نرسری میں موجود تھے۔ تاہم اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اس وقت نرسری میں دس بچوں کا علاج ہو رہا ہے کیونکہ لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔‘
ڈاکٹر سکندر وڑائچ کے مطابق اس ہسپتال میں میڈیکل آفسیر کی 51 اور نرسروں کی 30 آسامیاں خالی ہیں جن پر بھرتیاں نہیں کی جا رہیں۔ جس دن نرسری میں آٹھ ہلاکتیں ہوئیں اس دن بھی صرف دو نرسیں 50 سے زائد بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔
علاقے کے کچھ نجی ہسپتالوں میں نرسریاں موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کے علاج پر اوسطاً آٹھ ہزار روپے روزانہ خرچ آتا ہے اور اتنی رقم ادا کرنا اکثریتی آبادی کے بس سے باہر ہے
علاقے کے کچھ نجی ہسپتالوں میں نرسریاں موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کے علاج پر اوسطاً آٹھ ہزار روپے روزانہ خرچ آتا ہے اور اتنی رقم ادا کرنا اکثریتی آبادی کے بس سے باہر ہے۔
حکومت ہسپتال میں وسائل کی کمی اور صحت کے نظام میں موجود کمزوریوں سے انکار تو نہیں کرتی تاہم بچوں کی ہلاکتوں کی ذمےداری لینے کو بھی تیار نہیں ہے۔
صوبے کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ نذیر عاقب نیکوکار نے بتایا کہ پاکستان میں 1,000 میں سے 55 بچے پیدا ہونے کے فوری بعد مر جاتے ہیں۔اصل مسئلہ دورانِ حمل اور زچگی کا ہے۔
انھوں نے بتایا ’صرف ضلع سرگودھا میں ہر سال سوا لاکھ سے زائد بچے پیدا ہو رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہاں ہر ماہ 9,500 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اوسطاً تعداد کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو ہر ماہ یہاں 450 نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔ تاہم ایک ہسپتال میں ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت یقیناً ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔‘
سرگودھا کے ہسپتال میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد وزیرِ اعلی پنجاب نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جو ہسپتال ذرائع کے مطابق اپنی تحقیقات مکمل کرچکی ہے۔ تاہم ابھی تک رپورٹ کو منظرعام پرنہیں لایا گیا۔
پنجاب حکومت نے ہسپتال میں انتظامی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں کی ہیں اور اس وقت صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں موجود نرسریوں کی گنجائش دوگنی کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت کا ذمےدار کون ہے؟ حکومت یا ہپستال کی انتظامیہ ؟
ای ڈی او ہیلتھ کہتے ہیں کہ انکوائری کمیٹی نے ذمےداری ہسپتال کے ایم ایس پر ڈالی ہے اور انھیں عہدے سے برطرف بھی کر دیا گیا لیکن ڈاکٹر یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
لنک

سرگودھا شہر کے وسط میں موجود ہسپتال کی عمارت کافی جدید ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا ہے
پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر سرگودھا سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک گاؤں چک تیس جنوبی کی رہائشی کوثر کی بیٹی کے یہاں دو ہفتے پہلے بچی کی پیدائش ہوئی۔
یہ بچی پیدا تو ایک پرائیویٹ کلینک میں ہوئی لیکن اسے پیدائش کے کچھ گھنٹے بعد انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال کی نرسری متنقل کیا گیا جہاں وہ کچھ روز بعد دم توڑ گئی۔
کوثر کہتی ہیں کہ جس رات ان کی نواسی مری اس کے چند گھنٹوں کے دوران نرسری میں سات اور بچے بھی ہلاک ہوئے۔
’رات کو ایک بجے ہم بچی کو نرسری میں دیکھنے گئے تو وہ بالکل نیلی ہوچکی تھی۔ ہم نے نرسروں کو بلایا کہ دیکھو اسے کیا ہوگیا ہے۔‘

حکومت پنجاب اربوں روپے میٹرو بس جیسے منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے لیکن مبصرین کے مطابق تعلیم اور صحت پر بجٹ بہت کم ہے
کوثر کے مطابق نرسوں نے بتایا کہ نرسری میں جگہ ہی نہیں اسے آ کسیجن کہاں سے لگائیں؟ اس کے بعد وہ بچی نرسری سے باہر لائیں تاکہ اسے آ کسیجن لگائی جاسکے لیکن اس وقت تک بچی ختم ہو چکی تھی۔
کوثر کا کہنا تھا کہ بعد میں ڈاکٹر آئے تو انھیں نرسری کے عملے نے بتایا کہ آ کسیجن ختم ہو چکی ہے۔
تھرپارکر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کی خبریں تو کئی دنوں سے میڈیا کی زینت بن رہی تھیں لیکن پنجاب کے نسبتاً ترقی یافتہ شہر میں ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں پیش آنے والے اس واقعے نے سب کو چونکا دیا۔

یہ پورے ڈویثرن کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں نوزائیدہ اور کمزور بچوں کے لیے باقاعدہ نرسری موجود ہے
سرگودھا شہر کے وسط میں موجود ہسپتال کی عمارت کافی جدید ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔
یہ پورے ڈوژن کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں نوزائیدہ اور کمزور بچوں کے لیے باقاعدہ نرسری موجود ہے۔
سرگودھا ڈوژن کی مجموعی آبادی 90 لاکھ سے زائد ہے۔
سرگودھا کے سرکاری ہسپتال میں ایک رات میں آٹھ ہلاکتوں کے بعد کئی دنوں تک نرسری میں زیرِ علاج مزید بچوں کی موت کی خبریں آتی رہیں اور کہا گیا کہ چند روز میں سرگودھا ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال میں 20 سے زائد بچے ہلاک ہوئے تاہم اب یہ تعداد رک چکی ہےاس کی وجہ کیا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سکندر وڑائچ نے بتایا ’ہسپتال کی نرسری میں 25 بچوں کی گنجائش ہے لیکن یہاں اکثر 25 سے زیادہ بچے زیر علاج رہتے ہیں۔ جس دن ہلاکتیں ہوئیں اس دن بھی 51 بچے نرسری میں موجود تھے۔ تاہم اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اس وقت نرسری میں دس بچوں کا علاج ہو رہا ہے کیونکہ لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔‘
ڈاکٹر سکندر وڑائچ کے مطابق اس ہسپتال میں میڈیکل آفسیر کی 51 اور نرسروں کی 30 آسامیاں خالی ہیں جن پر بھرتیاں نہیں کی جا رہیں۔ جس دن نرسری میں آٹھ ہلاکتیں ہوئیں اس دن بھی صرف دو نرسیں 50 سے زائد بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔

علاقے کے کچھ نجی ہسپتالوں میں نرسریاں موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کے علاج پر اوسطاً آٹھ ہزار روپے روزانہ خرچ آتا ہے اور اتنی رقم ادا کرنا اکثریتی آبادی کے بس سے باہر ہے
علاقے کے کچھ نجی ہسپتالوں میں نرسریاں موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کے علاج پر اوسطاً آٹھ ہزار روپے روزانہ خرچ آتا ہے اور اتنی رقم ادا کرنا اکثریتی آبادی کے بس سے باہر ہے۔
حکومت ہسپتال میں وسائل کی کمی اور صحت کے نظام میں موجود کمزوریوں سے انکار تو نہیں کرتی تاہم بچوں کی ہلاکتوں کی ذمےداری لینے کو بھی تیار نہیں ہے۔
صوبے کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ نذیر عاقب نیکوکار نے بتایا کہ پاکستان میں 1,000 میں سے 55 بچے پیدا ہونے کے فوری بعد مر جاتے ہیں۔اصل مسئلہ دورانِ حمل اور زچگی کا ہے۔
انھوں نے بتایا ’صرف ضلع سرگودھا میں ہر سال سوا لاکھ سے زائد بچے پیدا ہو رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہاں ہر ماہ 9,500 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اوسطاً تعداد کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو ہر ماہ یہاں 450 نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔ تاہم ایک ہسپتال میں ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت یقیناً ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔‘
سرگودھا کے ہسپتال میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد وزیرِ اعلی پنجاب نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جو ہسپتال ذرائع کے مطابق اپنی تحقیقات مکمل کرچکی ہے۔ تاہم ابھی تک رپورٹ کو منظرعام پرنہیں لایا گیا۔
پنجاب حکومت نے ہسپتال میں انتظامی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں کی ہیں اور اس وقت صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں موجود نرسریوں کی گنجائش دوگنی کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت کا ذمےدار کون ہے؟ حکومت یا ہپستال کی انتظامیہ ؟
ای ڈی او ہیلتھ کہتے ہیں کہ انکوائری کمیٹی نے ذمےداری ہسپتال کے ایم ایس پر ڈالی ہے اور انھیں عہدے سے برطرف بھی کر دیا گیا لیکن ڈاکٹر یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
لنک