’ہستپال میں آکسیجن دستیاب نہیں‘

منقب سید

محفلین
شمائلہ جعفری بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرگودھا
141127145534_sargodha_hospital__640x360_bbc_nocredit.jpg

سرگودھا شہر کے وسط میں موجود ہسپتال کی عمارت کافی جدید ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا ہے
پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر سرگودھا سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک گاؤں چک تیس جنوبی کی رہائشی کوثر کی بیٹی کے یہاں دو ہفتے پہلے بچی کی پیدائش ہوئی۔

یہ بچی پیدا تو ایک پرائیویٹ کلینک میں ہوئی لیکن اسے پیدائش کے کچھ گھنٹے بعد انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال کی نرسری متنقل کیا گیا جہاں وہ کچھ روز بعد دم توڑ گئی۔

کوثر کہتی ہیں کہ جس رات ان کی نواسی مری اس کے چند گھنٹوں کے دوران نرسری میں سات اور بچے بھی ہلاک ہوئے۔

’رات کو ایک بجے ہم بچی کو نرسری میں دیکھنے گئے تو وہ بالکل نیلی ہوچکی تھی۔ ہم نے نرسروں کو بلایا کہ دیکھو اسے کیا ہوگیا ہے۔‘

130210185445_lahore_metro_6.jpg

حکومت پنجاب اربوں روپے میٹرو بس جیسے منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے لیکن مبصرین کے مطابق تعلیم اور صحت پر بجٹ بہت کم ہے
کوثر کے مطابق نرسوں نے بتایا کہ نرسری میں جگہ ہی نہیں اسے آ کسیجن کہاں سے لگائیں؟ اس کے بعد وہ بچی نرسری سے باہر لائیں تاکہ اسے آ کسیجن لگائی جاسکے لیکن اس وقت تک بچی ختم ہو چکی تھی۔

کوثر کا کہنا تھا کہ بعد میں ڈاکٹر آئے تو انھیں نرسری کے عملے نے بتایا کہ آ کسیجن ختم ہو چکی ہے۔

تھرپارکر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کی خبریں تو کئی دنوں سے میڈیا کی زینت بن رہی تھیں لیکن پنجاب کے نسبتاً ترقی یافتہ شہر میں ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں پیش آنے والے اس واقعے نے سب کو چونکا دیا۔

141127144350_sargodha_infants__640x360_bbc_nocredit.jpg

یہ پورے ڈویثرن کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں نوزائیدہ اور کمزور بچوں کے لیے باقاعدہ نرسری موجود ہے
سرگودھا شہر کے وسط میں موجود ہسپتال کی عمارت کافی جدید ہے جسے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔

یہ پورے ڈوژن کا واحد سرکاری ہسپتال ہے جہاں نوزائیدہ اور کمزور بچوں کے لیے باقاعدہ نرسری موجود ہے۔

سرگودھا ڈوژن کی مجموعی آبادی 90 لاکھ سے زائد ہے۔

سرگودھا کے سرکاری ہسپتال میں ایک رات میں آٹھ ہلاکتوں کے بعد کئی دنوں تک نرسری میں زیرِ علاج مزید بچوں کی موت کی خبریں آتی رہیں اور کہا گیا کہ چند روز میں سرگودھا ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال میں 20 سے زائد بچے ہلاک ہوئے تاہم اب یہ تعداد رک چکی ہےاس کی وجہ کیا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سکندر وڑائچ نے بتایا ’ہسپتال کی نرسری میں 25 بچوں کی گنجائش ہے لیکن یہاں اکثر 25 سے زیادہ بچے زیر علاج رہتے ہیں۔ جس دن ہلاکتیں ہوئیں اس دن بھی 51 بچے نرسری میں موجود تھے۔ تاہم اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اس وقت نرسری میں دس بچوں کا علاج ہو رہا ہے کیونکہ لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔‘

ڈاکٹر سکندر وڑائچ کے مطابق اس ہسپتال میں میڈیکل آفسیر کی 51 اور نرسروں کی 30 آسامیاں خالی ہیں جن پر بھرتیاں نہیں کی جا رہیں۔ جس دن نرسری میں آٹھ ہلاکتیں ہوئیں اس دن بھی صرف دو نرسیں 50 سے زائد بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔

141127144731_sargodha_hospital__640x360_bbc_nocredit.jpg

علاقے کے کچھ نجی ہسپتالوں میں نرسریاں موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کے علاج پر اوسطاً آٹھ ہزار روپے روزانہ خرچ آتا ہے اور اتنی رقم ادا کرنا اکثریتی آبادی کے بس سے باہر ہے
علاقے کے کچھ نجی ہسپتالوں میں نرسریاں موجود ہیں لیکن یہاں بچوں کے علاج پر اوسطاً آٹھ ہزار روپے روزانہ خرچ آتا ہے اور اتنی رقم ادا کرنا اکثریتی آبادی کے بس سے باہر ہے۔

حکومت ہسپتال میں وسائل کی کمی اور صحت کے نظام میں موجود کمزوریوں سے انکار تو نہیں کرتی تاہم بچوں کی ہلاکتوں کی ذمےداری لینے کو بھی تیار نہیں ہے۔

صوبے کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ نذیر عاقب نیکوکار نے بتایا کہ پاکستان میں 1,000 میں سے 55 بچے پیدا ہونے کے فوری بعد مر جاتے ہیں۔اصل مسئلہ دورانِ حمل اور زچگی کا ہے۔

انھوں نے بتایا ’صرف ضلع سرگودھا میں ہر سال سوا لاکھ سے زائد بچے پیدا ہو رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہاں ہر ماہ 9,500 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اوسطاً تعداد کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو ہر ماہ یہاں 450 نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔ تاہم ایک ہسپتال میں ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت یقیناً ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔‘

سرگودھا کے ہسپتال میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد وزیرِ اعلی پنجاب نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جو ہسپتال ذرائع کے مطابق اپنی تحقیقات مکمل کرچکی ہے۔ تاہم ابھی تک رپورٹ کو منظرعام پرنہیں لایا گیا۔

پنجاب حکومت نے ہسپتال میں انتظامی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں کی ہیں اور اس وقت صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں موجود نرسریوں کی گنجائش دوگنی کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت کا ذمےدار کون ہے؟ حکومت یا ہپستال کی انتظامیہ ؟

ای ڈی او ہیلتھ کہتے ہیں کہ انکوائری کمیٹی نے ذمےداری ہسپتال کے ایم ایس پر ڈالی ہے اور انھیں عہدے سے برطرف بھی کر دیا گیا لیکن ڈاکٹر یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔
لنک
 

arifkarim

معطل
کوثر کا کہنا تھا کہ بعد میں ڈاکٹر آئے تو انھیں نرسری کے عملے نے بتایا کہ آ کسیجن ختم ہو چکی ہے۔
البتہ اس نااہل حکومت کی مدت ابھی 4 سال باقی ہے۔ چلے تو چل ہی جائے گا سفر۔ آہستہ آہستہ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ہی رات میں آٹھ بچوں کی ہلاکت کا ذمےدار کون ہے؟ حکومت یا ہپستال کی انتظامیہ ؟
کیا ہسپتال اپنے آپ چل رہے ہیں یا حکومت انکی کفیل ہے؟ اگر ہسپتال حکومت کے زیر نگرانی ہیں تو حکومت زمہ دار ہے۔ گو کہ جنوبی کوریا میں جو کشتی کپتان کی غفلت سے ڈوبی تھی اسمیں وہاں کے وزیر اعظم کا کوئی قصور نہیں تھا البتہ اسنے اسکے باوجود قومی اخوت اور یکجہتی کے تحت استعفیٰ دے دیا۔ وہ غیر مسلم تو غیرت والے ہیں۔ یہ مسلمان حاجی نورا غیرت والا تھوڑی ہے۔

سرگودھا کے ہسپتال میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد وزیرِ اعلی پنجاب نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی جو ہسپتال ذرائع کے مطابق اپنی تحقیقات مکمل کرچکی ہے۔ تاہم ابھی تک رپورٹ کو منظرعام پرنہیں لایا گیا۔
جیسے الیکشن دھاندلی اور ماڈل ٹاؤن سانحہ پر اپنے زیر نگرانی ایک کمیشن کمیٹی بنا دی تھی لیکن اسکی رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا کہ اسمیں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کیخلاف کوئی شواہد نہیں ملے۔ اگر ملتے تو نہ صرف یہ رپورٹ شائع ہوتی بلکہ روزانہ اسکا ذرائع ابلاغ میں چرچا ہو رہا ہوتا جیسے پی ٹی وی حملے کا ہوتا ہے۔ گو کہ اس حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان عمل میں نہیں آیا لیکن چرچا ابھی تک ہو رہا ہے۔

پتہ نہیں ہمارے ملک میں اس طرح کے دکھوں کا سلسلہ کب تھمے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک اس ملک کی عوام شریفین اور زرداری خاندان سے اپنی جان نہیں چھڑاتی، تب تک تھر اور پنجاب کو اسکون نصیب نہیں ہوگا۔
 

منقب سید

محفلین
البتہ اس نااہل حکومت کی مدت ابھی 4 سال باقی ہے۔ چلے تو چل ہی جائے گا سفر۔ آہستہ آہستہ۔

کیا ہسپتال اپنے آپ چل رہے ہیں یا حکومت انکی کفیل ہے؟ اگر ہسپتال حکومت کے زیر نگرانی ہیں تو حکومت زمہ دار ہے۔ گو کہ جنوبی کوریا میں جو کشتی کپتان کی غفلت سے ڈوبی تھی اسمیں وہاں کے وزیر اعظم کا کوئی قصور نہیں تھا البتہ اسنے اسکے باوجود قومی اخوت اور یکجہتی کے تحت استعفیٰ دے دیا۔ وہ غیر مسلم تو غیرت والے ہیں۔ یہ مسلمان حاجی نورا غیرت والا تھوڑی ہے۔


جیسے الیکشن دھاندلی اور ماڈل ٹاؤن سانحہ پر اپنے زیر نگرانی ایک کمیشن کمیٹی بنا دی تھی لیکن اسکی رپورٹ کو منظر عام پر نہیں لایا گیا کہ اسمیں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کیخلاف کوئی شواہد نہیں ملے۔ اگر ملتے تو نہ صرف یہ رپورٹ شائع ہوتی بلکہ روزانہ اسکا ذرائع ابلاغ میں چرچا ہو رہا ہوتا جیسے پی ٹی وی حملے کا ہوتا ہے۔ گو کہ اس حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان عمل میں نہیں آیا لیکن چرچا ابھی تک ہو رہا ہے۔


جب تک اس ملک کی عوام شریفین اور زرداری خاندان سے اپنی جان نہیں چھڑاتی، تب تک تھر اور پنجاب کو اسکون نصیب نہیں ہوگا۔
عارف بھائی ہر مشکل کا حل صرف وزیر اعظم کا جانا ہی نہیں ہے۔ بات سسٹم کے بدلنے کی ہے اور سسٹم نئے وزیر اعظم کے آتے ساتھ ہی جادو سے نہیں بدلا جا سکتا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ حکومت ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ نئے وزیر اعظم سے اتنی امیدیں مت لگا لیں کہ اللہ نہ کرے نئی حکومت کے آتے ساتھ ہی سسٹم کی خرابی کی وجہ سے کوئی بڑا سانحہ ہو جائے تو آپ کی دی گئی مثال کے حساب سے نئے وزیر اعظم کے لئے استعفیٰ دینا ناگزیر ہوجائے۔ سسٹم ایک دن میں نہیں بگڑا بلکہ اسے بگاڑنے میں ہر حکومت کے ساتھ ساتھ ہم عوام کا بھی ہاتھ ہے اور یہ اتنی جلدی ٹھیک بھی نہیں ہونا۔ لہذا سسٹم کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بدلنا ہوگا اور میرے خیال میں اگرعوام میں شعورآیاہے اور نوجوان نسل اٹھی ہے تو اس سسٹم کے ٹھیک ہونے کے ثمرات ان کی آئندہ آنے والی نسل ہی صحیح طور پر حاصل کر پائے گی۔
 

arifkarim

معطل
عارف بھائی ہر مشکل کا حل صرف وزیر اعظم کا جانا ہی نہیں ہے۔ بات سسٹم کے بدلنے کی ہے اور سسٹم نئے وزیر اعظم کے آتے ساتھ ہی جادو سے نہیں بدلا جا سکتا۔
سسٹم بدلنے کیلئے نئی نئی سیاسی جماعتوں کا اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ جب ووٹ کے ذریعے تبدیلی نہیں آتی تو پھر فوج کا ڈنڈا آجاتا ہے۔ اور انکے جاتے ہی پھر وہی نورا کشتی۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ حکومت ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ نئے وزیر اعظم سے اتنی امیدیں مت لگا لیں کہ اللہ نہ کرے نئی حکومت کے آتے ساتھ ہی سسٹم کی خرابی کی وجہ سے کوئی بڑا سانحہ ہو جائے تو آپ کی دی گئی مثال کے حساب سے نئے وزیر اعظم کے لئے استعفیٰ دینا ناگزیر ہوجائے۔
جو بھی وزیر آئے اسکو چاہئے کہ اس ملک کے ادارے ٹھیک کرے۔ یا انکی از سر نو تشکیل کرے۔ یہاں مغرب میں ملک ادارے چلاتے ہیں وزراء نہیں :) وہ صرف نگرانی کرتے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ قانون سازی۔ باقی کام بیروکریٹس اور پروفیشنلز کا ہوتا ہے :) ہمارے ہاں بلدیاتی فنڈز باقاعدہ جعل سازی سے جیتے ہوئے وزراء کو دے دئے جاتے ہیں۔ ایسے میں ملک کیسے بدلے؟ پہلا اپنا الیکشن کا نظام تو ٹھیک کر لیں :)
اور عمران یہی تو کر رہا ہے۔
سسٹم ایک دن میں نہیں بگڑا بلکہ اسے بگاڑنے میں ہر حکومت کے ساتھ ساتھ ہم عوام کا بھی ہاتھ ہے اور یہ اتنی جلدی ٹھیک بھی نہیں ہونا۔ لہذا سسٹم کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بدلنا ہوگا اور میرے خیال میں اگرعوام میں شعورآیاہے اور نوجوان نسل اٹھی ہے تو اس سسٹم کے ٹھیک ہونے کے ثمرات ان کی آئندہ آنے والی نسل ہی صحیح طور پر حاصل کر پائے گی۔
عوام کا ہاتھ کیسے ہے؟ کیا یہ وہی عوام نہیں جو انگریز کے بنائے ہوئے تعلیمی نظام کے نیچے ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نوبیل انعام یافتہ لوگ بنا گئی؟ جو قائد اعظلم جیسے رہنما، علامہ اقبال جیسے مفکر اس قوم کو دے گئی؟ لوگ تو وہی ہاں، البتہ حکمران انگریز نہیں رہے اسلئے ملک کا یہ حال ہے۔ انگریزوں کو واپس بلا لیں، یہی ادارے پاکستان سے پہلے کی طرح ٹھیک ہو جائیں گے :)
 
اب تو یار ایک عام انسان ،ایک غریب آدمی کے لئے کھلے آسمان کے نیچے زندہ رہنے کیلئے "آکسیجن" دستیاب نہیں ہے۔۔۔


img_06441-576x350.jpg
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
جمادار سے ہسپتال کا اعلی عہدیداران تک کی ذمہ داری ہے
کیسے آکسیجن اور دیگر لوازمات ختم ہوجاتے ہیں اگر اوپر سے نہیں مل رہے ہیں تو پریس کانفرنس کرے، ایک گھنٹے میں وزیراعظم تک
اٹ کر آجائے گا۔
 

منقب سید

محفلین
سسٹم بدلنے کیلئے نئی نئی سیاسی جماعتوں کا اقتدار میں آنا ضروری ہے۔
مجموعی طور پرنئی جماعتوں کی جگہ مخلص اورعوام دوست نوجوان سیاستدانوں کا آنا ضروری ہے چاہے وہ مختلف جماعتوں سے ہوں یا ایک جماعت سے۔

جو بھی وزیر آئے اسکو چاہئے کہ اس ملک کے ادارے ٹھیک کرے۔ یا انکی از سر نو تشکیل کرے۔ یہاں مغرب میں ملک ادارے چلاتے ہیں وزراء نہیں :) وہ صرف نگرانی کرتے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ قانون سازی۔ باقی کام بیروکریٹس اور پروفیشنلز کا ہوتا ہے :) ہمارے ہاں بلدیاتی فنڈز باقاعدہ جعل سازی سے جیتے ہوئے وزراء کو دے دئے جاتے ہیں۔ ایسے میں ملک کیسے بدلے؟ پہلا اپنا الیکشن کا نظام تو ٹھیک کر لیں :)
کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاستدان خود سے ادارے ٹھیک کرنے یا انہیں از سر نو تشکیل دینے کا کام سر انجام نہیں دے سکتا۔ یا اس کی پارٹی میں سے ہی مخالفت ہو جاتی ہے یا اپوزیشن اس پر مفاد پرستی کا الزام لگا دیتی ہے اور کچھ نہ ہو تو بیوروکریسی قانونی نکات کی مار مار دیتی ہے۔ جہاں تک بات بلدیاتی فنڈز کی ہے تو اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی جس میں عوامی نمائندوں کو اختیارات حاصل ہوں کے بغیر چھوٹے علاقوں کے مسائل حل ہونا ممکن نہیں۔ الیکشن کا نظام بھی باتوں سے تو نہیں بدل سکتا۔ عملی طور پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے نئی حکومت کو بہت سے فیصلے ڈکٹیٹر شپ کے اصولوں کے تحت کرنے پڑیں گے۔
عوام کا ہاتھ کیسے ہے؟ کیا یہ وہی عوام نہیں جو انگریز کے بنائے ہوئے تعلیمی نظام کے نیچے ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نوبیل انعام یافتہ لوگ بنا گئی؟ جو قائد اعظلم جیسے رہنما، علامہ اقبال جیسے مفکر اس قوم کو دے گئی؟ لوگ تو وہی ہاں، البتہ حکمران انگریز نہیں رہے اسلئے ملک کا یہ حال ہے۔ انگریزوں کو واپس بلا لیں، یہی ادارے پاکستان سے پہلے کی طرح ٹھیک ہو جائیں گے :)
عارف بھائی عوام کا ہی ہاتھ ہے ورنہ اتنے عرصے سے جاری ظلم و زیادتی پر اجتماعی بے حسی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا۔ کرپشن اور اقرباء پروری انگریزوں کے دور میں بھی تھی کیا تب وڈیروں، خانوں اور چوہدریوں کو تاج برطانیہ سے وفاداری کے طور پر عوامی استحصال کرنے کے بدلے میں جائیدادیں نہیں بانٹی گئیں؟ غریب عوام کے نام پر سیاست کرنے والے ہر سیاستدان نے اقتدار میں آ کر صرف اپنا ہی سوچا۔ ایوان کی سیشنز کے دوران، ایم این ایز یا سینیٹرز کے چیمبرز میں بلکہ کبھی کبھی سر عام پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں ہونے والی ڈیلز کب عوام دوست رہی ہیں؟ انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ہمارے حکمران ان ہی کے غلام رہے ہیں بس فرق یہ پڑا کہ پہلے تاج برطانیہ سے وفاداری کرنی پڑتی تھی اب انکل سام سے۔ بہرحال اب اگر نوجوان نسل میں شعور آیا ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق اور ملکی ترقی کے لئے پُر جوش ہو کر نکلے ہیں تو ایسے وقت میں اداروں کی بہتری کے لئے بطور طنز ہی سہی اعلانیہ غلامی کا آپشن پیش کرنا مناسب نہیں۔
 

arifkarim

معطل
مجموعی طور پرنئی جماعتوں کی جگہ مخلص اورعوام دوست نوجوان سیاستدانوں کا آنا ضروری ہے چاہے وہ مختلف جماعتوں سے ہوں یا ایک جماعت سے۔
دھاندلی کے نظام کے ہوتے ہوئے عوام دوست نوجوان سیاست میں کیسے آ سکتے ہیں جب باریاں لینے پہلے سے موجود سیاسی خاندانوں کے صاحبزادے کرسیوں پر بیٹھے ہوں؟

کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاستدان خود سے ادارے ٹھیک کرنے یا انہیں از سر نو تشکیل دینے کا کام سر انجام نہیں دے سکتا۔ یا اس کی پارٹی میں سے ہی مخالفت ہو جاتی ہے یا اپوزیشن اس پر مفاد پرستی کا الزام لگا دیتی ہے اور کچھ نہ ہو تو بیوروکریسی قانونی نکات کی مار مار دیتی ہے۔
پھر تو یہ ملک کبھی نہیں چل سکتا جب بھاری مینڈیٹ لیکر آنے والی سیاسی جماعت بھی یہاں عوام کی قوت پرخود مختار ادارے نہ قائم کر سکے۔ کیا آپ اس بات کو نہیں مانتے کہ پنجاب پولیس کو خراب کرنے میں نواز شریف کے پہلے دور کا ہاتھ تھا؟ اسوقت کے آئی جی کا تو یہی کہنا ہے۔ مطلب اگر قومی ادارے ان سیاست دانوں کی غیر قانونی مداخلت سے تباہ ہو سکتے ہیں تو یہی اسکو ٹھیک بھی کر سکتے ہیں سیاسی مداخلت نہ کر کے۔

جہاں تک بات بلدیاتی فنڈز کی ہے تو اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی جس میں عوامی نمائندوں کو اختیارات حاصل ہوں کے بغیر چھوٹے علاقوں کے مسائل حل ہونا ممکن نہیں۔ الیکشن کا نظام بھی باتوں سے تو نہیں بدل سکتا۔ عملی طور پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے نئی حکومت کو بہت سے فیصلے ڈکٹیٹر شپ کے اصولوں کے تحت کرنے پڑیں گے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو حکومت اگر خود دھاندلی کی پیداوار ہو وہ کیونکر سابقہ الیکشن کا کڑا احتساب کر سکے گی یا آئندہ الیکشن کو صاف و شفاف بنانے کیلئے قانون سازی کرے گی؟ یہ کام تو کسی غیر جانب دار قوت ہی کو کرنا ہوگا لیکن انکے آتے ہی ہمیں جمہوریت کا سانپ سونگھ جاتا ہے :)

غریب عوام کے نام پر سیاست کرنے والے ہر سیاستدان نے اقتدار میں آ کر صرف اپنا ہی سوچا۔ ایوان کی سیشنز کے دوران، ایم این ایز یا سینیٹرز کے چیمبرز میں بلکہ کبھی کبھی سر عام پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں ہونے والی ڈیلز کب عوام دوست رہی ہیں؟
یعنی ہمیں سیاست دان بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ ظاہر ہے صاف اور شفاف الیکشن کے بغیر ممکن نہیں۔ جو دھاندلی میں مہارت رکھتے ہوں وہ کیسے صاف و شفاف الیکشن اس ملک میں ہوتے دیکھ سکتے ہیں؟

انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ہمارے حکمران ان ہی کے غلام رہے ہیں بس فرق یہ پڑا کہ پہلے تاج برطانیہ سے وفاداری کرنی پڑتی تھی اب انکل سام سے۔ بہرحال اب اگر نوجوان نسل میں شعور آیا ہے اور وہ اپنے بنیادی حقوق اور ملکی ترقی کے لئے پُر جوش ہو کر نکلے ہیں تو ایسے وقت میں اداروں کی بہتری کے لئے بطور طنز ہی سہی اعلانیہ غلامی کا آپشن پیش کرنا مناسب نہیں۔
متفق! اگر نوجوان نسل لوٹ مار کی بجائے واقعتاً نیک نیتی کیساتھ سیاست کرے تو کام چل سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ یہاں 30 سال سے کم نوجوانوں کا ایوانوں میں داخلہ ممنوع ہے کیونکہ انکو اس نظام میں ووٹ نہیں پڑتے۔
 
Top