حسان خان
لائبریرین
سی آئی اے کے حال ہی میں جاری کی گئی دستاویزات میں پہلی بار اس بات کا باضابطہ اعتراف کیا گیا ہے کہ 1953 میں سی آئی اے نے مصدق حکومت کا تختہ الٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ان دستاویزات کے ایک اقتباس میں لکھا ہے کہ ’ایران میں فوجی بغاوت سی آئی اے کی ہدایت پر کی گئی تھی امریکی خارجہ پالیسی کے ایک عمل کے طور پر‘۔
ان دستاویزات میں جو اس بغاوت کے ساٹھ سال ہورے ہونے پر شائع کی گئی ہیں جن میں ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنے میں سی آئی کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ دستاویزات سی آئی اے کی داخلی تاریخ سے متعلق ہیں جو 1970 کے وسط کے دور کی ہیں۔
اس بغاوت کے بارے میں سابق امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کھلے عام 2000 میں اور صدربراک اوباما نے 2009 کی اپنی قاہرہ کی تقریر میں بات کی۔
ان دستاویزات کے مدیر مالکم بائرن کا کہنا ہے کہ ’اب تک خفیہ ادارے اس بغاوت میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کے حوالے سے مکمل طور پر نفی کا اظہار کرتے رہے ہیں‘۔
یہ پہلی بار ہے کہ امریکی سی آئی اے نے اس بغاوت میں اپنے کردار کے حوالے سے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس MI6 کے ساتھ اشتراک پر واضع اعتراف کیا ہے۔
مالکم بائرن کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات نہ صرف ’نئی معلومات بلکہ سی آئی اے کے اس آپریشن سے پہلے اور بعد میں کارروائیوں کے بارے میں ایک گہرا مشاہدہ فراہم کرتی ہیں‘ مگر ’جانبین میں بے جا طرفداری بشمول ایرانی حکومت نے اس بغاوت کے آثار پیدا کیے‘۔
ان دستاویزات کو این ایس اے یعنی امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے آزادی اظہار کے ایکٹ کے تحت حاصل کیا ہے۔
ایرانیوں نے 1951 میں مصدق کو وزیراعظم منتخب کیا اور وہ جلد ہی ملک کی تیل کی آمد کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گئے جو کہ اب تک برطانوی اختیار میں برٹش ایرانین آئل کے زیر اثر تھی جو بعد میں برٹش پٹرولیم بن گئی۔
وزیر اعظم مصدق کی یہ قومیانے کی پالیسی امریکہ اور خصوصاً برطانیہ کے لیے تشویش کا باعث تھی جن کے نزدیک ایران کا تیل جنگ عظیم دوم کے بعد تعمیرنو کے کام میں ایک اہم کردار رکھتا تھا۔
سرد جنگ بھی اس تمام عمل میں ایک اہم عنصر تھی۔
بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے ڈونلڈ ولبر کا کہنا ہے کہ ’ایران کے موجودہ حالات کو بہتر کرنے کا اس خفیہ منصوبے کے علاوہ کوئی علاج نہں ہے‘۔
سی آئی اے کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ کس طرح سی آئی اے نے اس بغاوت کی تیاری کی اور کس طرح وزیراعظم مصدق کی مخالفت میں مختلف خبریں ایرانی اور امریکی میڈیا میں شائع کروائیں۔
اس بغاوت سے ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کو تقویت ملی جو وزیر اعظم مصدق کے ساتھ اقتدار کی کھینچا تانی کے نتیجے میں ملک سے فرار ہو گئے تھے اور بغاوت کے بعد ایران واپس آئے اور خطے میں امریکہ کے سب سے اہم اور قریبی حلیف بن کر ابھرے۔
امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے شاہ کے حق میں اور مصدق کے خلاف مختلف جلسوں اور اجتماعات کا انتظام کیا۔
ولبر نے لکھا ’اس کے فوری بعد فوج بھی شاہ کے حق میں چلی اس تحریک کا حصہ بن گئی اور دن کے نصف حصے تک تہران میں یہ واضح ہو چکا تھا اور ملک کے کئی صوبائی علاقوں میں کہ ان کا کنٹرول شاہ کے حامی احتجاجی گروہوں اور فوج کے ہاتھ میں ہے‘۔
’انیس اگست کے آخر تک یا تو مصدق حکومت کے اراکین روپوش تھے یا انہیں قید کر لیا گیا تھا‘۔
اس بغاوت کے بعد شاہ ایران واپس آئے اور پھر 1979 میں ہی ملک چھوڑ کر گئے جب ان کے اقتدار کا خاتمہ اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ہوا۔
ربط
ان دستاویزات کے ایک اقتباس میں لکھا ہے کہ ’ایران میں فوجی بغاوت سی آئی اے کی ہدایت پر کی گئی تھی امریکی خارجہ پالیسی کے ایک عمل کے طور پر‘۔
ان دستاویزات میں جو اس بغاوت کے ساٹھ سال ہورے ہونے پر شائع کی گئی ہیں جن میں ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹنے میں سی آئی کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ دستاویزات سی آئی اے کی داخلی تاریخ سے متعلق ہیں جو 1970 کے وسط کے دور کی ہیں۔
اس بغاوت کے بارے میں سابق امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کھلے عام 2000 میں اور صدربراک اوباما نے 2009 کی اپنی قاہرہ کی تقریر میں بات کی۔
ان دستاویزات کے مدیر مالکم بائرن کا کہنا ہے کہ ’اب تک خفیہ ادارے اس بغاوت میں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کے حوالے سے مکمل طور پر نفی کا اظہار کرتے رہے ہیں‘۔
یہ پہلی بار ہے کہ امریکی سی آئی اے نے اس بغاوت میں اپنے کردار کے حوالے سے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس MI6 کے ساتھ اشتراک پر واضع اعتراف کیا ہے۔
مالکم بائرن کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات نہ صرف ’نئی معلومات بلکہ سی آئی اے کے اس آپریشن سے پہلے اور بعد میں کارروائیوں کے بارے میں ایک گہرا مشاہدہ فراہم کرتی ہیں‘ مگر ’جانبین میں بے جا طرفداری بشمول ایرانی حکومت نے اس بغاوت کے آثار پیدا کیے‘۔
ان دستاویزات کو این ایس اے یعنی امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے آزادی اظہار کے ایکٹ کے تحت حاصل کیا ہے۔
ایرانیوں نے 1951 میں مصدق کو وزیراعظم منتخب کیا اور وہ جلد ہی ملک کی تیل کی آمد کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گئے جو کہ اب تک برطانوی اختیار میں برٹش ایرانین آئل کے زیر اثر تھی جو بعد میں برٹش پٹرولیم بن گئی۔
وزیر اعظم مصدق کی یہ قومیانے کی پالیسی امریکہ اور خصوصاً برطانیہ کے لیے تشویش کا باعث تھی جن کے نزدیک ایران کا تیل جنگ عظیم دوم کے بعد تعمیرنو کے کام میں ایک اہم کردار رکھتا تھا۔
سرد جنگ بھی اس تمام عمل میں ایک اہم عنصر تھی۔
بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے والے ڈونلڈ ولبر کا کہنا ہے کہ ’ایران کے موجودہ حالات کو بہتر کرنے کا اس خفیہ منصوبے کے علاوہ کوئی علاج نہں ہے‘۔
سی آئی اے کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ کس طرح سی آئی اے نے اس بغاوت کی تیاری کی اور کس طرح وزیراعظم مصدق کی مخالفت میں مختلف خبریں ایرانی اور امریکی میڈیا میں شائع کروائیں۔
اس بغاوت سے ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کو تقویت ملی جو وزیر اعظم مصدق کے ساتھ اقتدار کی کھینچا تانی کے نتیجے میں ملک سے فرار ہو گئے تھے اور بغاوت کے بعد ایران واپس آئے اور خطے میں امریکہ کے سب سے اہم اور قریبی حلیف بن کر ابھرے۔
امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے شاہ کے حق میں اور مصدق کے خلاف مختلف جلسوں اور اجتماعات کا انتظام کیا۔
ولبر نے لکھا ’اس کے فوری بعد فوج بھی شاہ کے حق میں چلی اس تحریک کا حصہ بن گئی اور دن کے نصف حصے تک تہران میں یہ واضح ہو چکا تھا اور ملک کے کئی صوبائی علاقوں میں کہ ان کا کنٹرول شاہ کے حامی احتجاجی گروہوں اور فوج کے ہاتھ میں ہے‘۔
’انیس اگست کے آخر تک یا تو مصدق حکومت کے اراکین روپوش تھے یا انہیں قید کر لیا گیا تھا‘۔
اس بغاوت کے بعد شاہ ایران واپس آئے اور پھر 1979 میں ہی ملک چھوڑ کر گئے جب ان کے اقتدار کا خاتمہ اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ہوا۔
ربط