’مردانہ منافقتوں میں گم ہوجانے والی عورت

کھانے کو اچھے پکوان اور پہننے کو بہتر سلوان مہیا کرکے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ عورت کا حقوق ادا کردیاگیا ہے۔ حقیقت سے مگر اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں خواتین کے ساتھ زندگی کی ضروریات میں بھی امتیاز برتا جاتا ہو، اسے ہم حق تلفی کی اضافی صورت تو کہہ سکتے ہیں بنیادی صورت نہیں کہہ سکتے۔ معاملہ اور ہے۔!! مساوات کی بنیاد یہ ہے کہ عورت کو اسی طرح سوچنے اور کہنے کی آزادی میسر ہو جس طرح کہ ایک مرد کو میسر رہتی ہے۔ اجتماعی شعور نے اب تک عورت کی شاپنگ کا حق تسلیم کیا ہے۔ دو قدم اگر کوئی آگے بڑھا ہے تو اس نے عورت کی پڑھائی لکھائی کا حق تسلیم کرلیا ہے۔ بنیا دی حق جو اسے بطور انسان قدرت نے دیا ہے، اس پہ طرح طرح کی بندشیں آج بھی عائد ہیں۔ کسی بندش کی بنیاد مذہب سے اٹھائی گئی تو کسی کا خمیر روایت کے دلدل سے اٹھایا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ عورتوں کے جس حق کی بات ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں کرتے ہیں، اسی حق کی بات ہم اپنے گھر کی عورتوں سے سن لیں تو ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ ہتھے سے نہ بھی اکھڑیں تو فشارِ خون قابو سے ضرور باہر ہوجاتا ہے۔ نہیں سمجھے؟ چلیئے جملہ الٹا کیئے دیتے ہیں۔۔!!! ہم اپنے گھروں میں عورتوں کا جو حق مسلسل دبا رہے ہوتے ہیں، اسی حق کیلئے ہم چوک چوراہوں پہ ماتم کناں رہتے ہیں۔ ایک بات تو ذرا بتلائیں۔!! وہ سچائی جسے ہم ضمیر کا سینہ چاک کرنے سے نہیں روک سکے ہیں، اس سچائی پہ ہم نے کیا سوچ کر گھر کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اس تلخ سوال کو ایک اور پہلو سے ظاہر کروں۔؟ چلیں سنیئے۔!! بہت چھوٹی سی بات ہے مگر کبھی سوچیئے گا کہ فیس بک پہ دوسرے گھر کی خواتین کو والہانہ خوش آمدید کہنے والی ہستیوں نے فیس بک کو ہی گھر کی عورتوں کیلئے شجرِ ممنوعہ کیوں قرار دے رکھا ہے؟ پھر جنہیں رشتے ہی فیس بک پہ میسر آئے ہیں انہوں نے شادیوں کے بعد سماجی ذرائع ابلاغ کی سر گرمیوں پہ خوشگوار پابندیاں کیوں عائد کردی ہیں؟ اس نفسیاتی خوف وہراس پہ کبھی غور کیا ہے؟ یہ سوال کہیں بھی رکھ دیجیئے اکثریت کا جواب ماحول کو الزام دے گا۔ کیا یہی سچ ہے؟ اگر یہی سچ ہے تو پھر کچھ وقت نکال کر ہمیں ضمیر کے آیئنے میں اپنا چہرہ دیکھ لینا چاہیئے۔ دیکھتے دم یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ جن حالات کو ہم خرابیِ ماحول کا نام دے رہے ہیں کیا انہی حالات سے ہم نے یہ رشتے دریافت نہیں کیئے؟ ماحول پہ تو چلو بات ہوتی رہے گی مگر ان رشتوں پہ کیا کہیئے گا جو رشتے ہمیں اسی ماحول نے عطا کیئے ہیں۔ کس قدر حسین تضاد ہے کہ جہاں سے میں نے بچے کیلئے ماں دریافت کی، مجھے خوف ہے کہ میری بیٹی وہیں سے میرے لیئے داماد نہ ڈھونڈ لائے۔ ایک اور پہلو پہ جاوں؟ چلیئے جاتے ہیں۔!!! سماجی ذرائع ابلاغ سے باہر آجایئے۔سماج میں کھڑے ہوکر دیکھ لیجیئے کہ جو بچیوں کی تعلیم یا تعلیم کے بعد غمِ روزگار پالنے پہ حرف گیر ہیں انہی کو اپنی اپنی بچیوں کے علاج کیلئے خاتون معالج کی تلاش رہتی ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ان رویوں نے سماج کا توازن بگاڑ رکھا ہے۔ میرے سوالات اگر غلط ہیں تو آپ ہی غور کر کے بتلا دیجیئے کہ خواتین کو جعلی ناموں سے اکاؤنٹ بنانے پہ کس چیز نے مجبور کررکھا ہے۔ سوچیئے، مزید سوچیئے، مگر بہرِ خدا خارج میں اسباب تلاش کرنے کے بجائے اپنے ہی من میں ڈوب غلطی کا سراغ لگایئے۔ سچ یہ ہے کہ۔۔!!! ہم نہیں چاہتے کہ ہماری فکر اور عمل میں پائے جانے والا تضاد گھر کی عورتوں پہ آشکارہو۔ انجان دنیا کو وعظ و پندار کے دام میں پھانسنا کوئی مشکل نہیں۔ یہ گھر کی عورتیں ہوتی ہیں جن کیلئے مردوں کی اوجھل حقیقتیں بھی ایک واجح بیانیہ ہوتی ہیں۔ اسی لیئے مناسب رہتا ہے کہ خواتین کو سات پردوں میں لپیٹ کر کسی محفوظ مقام پہ منجمد کردیا جائے۔ دم گھٹنے پہ خواتین مزاحمت کریں تو انہیں بتایا جائے کہ آپ پر یہ جبر اس لیئے روا رکھا جا رہا ہے کہ آپ کی ذات ایک انمول ہیرا ہے۔ ہیرے کو ہمیشہ کوئلے کے گوادام میں کہیں دباکر رکھتے ہیں۔ عورت ذات کا بھی اب کیا کیجیئے کہ پیار سے ماریئے تو مرنے پہ بھی آمادہ ہوجاتی ہے۔ ہر بار آمادہ ہو جاتی ہے۔ قدرت کے کارخانے میں اپنی نوعیت کی یہ واحد مخلوق ہے۔ عجیب مخلوق ہے۔ آمدم برسرمطلب۔!! یہ راگ جو میں نے چھیڑدیا ہے، قطعا بے جا نہیں ہے۔ اُدھر دلی میں ایک لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیاہے۔ یہاں لاھور میں ایک لڑکی سیاسی رسوخ رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بنننے کے بعد انصاف کیلئے دربدر ہے۔ دونوں واقعات میں ملوث ملزمان پکڑے جا چکے ہیں۔ دو نوں واقعات پہ دو سوال اٹھ رہے ہیں، دونوں کا جواب ملزم کے پڑھے لکھے طرفدار دے رہے ہیں۔ دلی کے جنسی درندوں پہ سوال اٹھا ’’جنسی تشدد تو خیر اپنی جگہ مگر لڑکی کو قتل کیوں کردیا، دانش کے دستیاب ذروں کو جوڑ کر جو جواب بن پایا ہے وہ کچھ یوں ہے ’’لڑکی اگر مسلسل شور نہ مچاتی اور ضرورت سے زیادہ مزاحمت نہ کرتی تو وہ کیوں ماری جاتی۔ آج زندہ ہوتی۔‘‘ لاھور کے جنسی درندوں پہ سوال آیا تو کسی بھی تحقیق سے پہلے جواب دینے کو مانے جانے وزیر آگے آئے۔ فرمایا ’’لڑکی کا پیشہ ہی یہی ہے، اسے سنجیدہ نہ لیا جائے‘‘ دلِ ہنگامہ جو اب کدھر کو جائے۔؟؟ میڈیکل رپورٹس اگرچہ وزیر بے تدبیر کی بات کو جھٹلا چکی ہیں، مگر فرض کر لینے میں کیا حرج ہے کہ یہ زیادتی ایک طوائف کے ساتھ ہوئی ہے۔ فرض کرلیا۔!! اب بتلایئے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ یہاں سے بات کا آغاز کیا جائے کہ زندگی کی کون سے تجربات ایک لڑکی کو کوٹھے کا راستہ دکھاتے ہیں؟ کیا اس سوال سے آغاز کیا جائے کہ تن اور برتن بیچنے پر مجبور خاتون کو ملنے والی اذیتوں میں کتنا حصہ ریاست کا اور کتنا حصہ سماج کا ہوتاہے؟ یا پھر ان روایتی سوالوں کا تعاقب کیا جائے جنہیں سن کر ایک لڑکی کیلئے ریسپشن پہ بیٹھنا تو مشکل اور کوٹھے پہ بیٹھنا آسان ہو جاتا ہے؟ انترہ جہاں سے بھی اٹھایئے، تان تو اسی سوال پہ آکر ٹوٹے گی کہ کیا پیشہ ور خاتون کے سر میں دماغ اور سینے میں دل نہیں ہوتا؟ کیا وہ جذبات و احساسات سے عاری کوئی وجود ہے؟ کیا علم کا کوئی کلیہ اسے انسانیت سے خارج کوئی وجود مانتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ نہیں ہے تو کسی مرد کو صرف اس لیئے اس وجود کو بھنبھوڑ دینے کا حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک پیشہ ور وجود ہے؟ اعلانیہ جواز پہ سماج کے اعلی دماغوں کی خاموشی چہ معنی دارد؟ پھر وہی تضاد؟ مرد اس لیئے پوتر ٹھہرا کہ اس کی جنسی صلاحیتیں خریدی نہیں جاتیں؟ عورت اس لیئے مردود ٹھہری کہ اس کی رعنائیوں کا معاوضہ دیا جاتا ہے؟ بستر کی سلوٹیں تو دو انسانوں کی عشوہ طرازیوں کی گواہی دیتی ہیں، مگر یہ کیا تماشہ ہے کہ ایک وجود تو اس میں پیشہ ور ٹھہرا اور دوسرا وجود بخت آور؟ آخری تجزیئے میں۔!! یہ سوالات اربابِ ایمان و عقائد سے نہیں ہیں۔ ان کا تو خیر ذکر ہی کیا۔ یہ سوالات ان خداوندانِ تقدیسِ مشرق سے ہیں جو خواتین کے حقوق پہ چیخ چلا کر ہلکان ہوئے جا تے ہیں، مگر نسوانیت کی رسوائیوں پہ انہوں نے زبان موڑ کے پیٹ میں رکھ لی ہے۔ سوال ہے اس پڑھے لکھے معاشرے سے جو ہزار تبدیلیوں کے بعد بھی جس نے عورت کے ساتھ صرف لیٹنے کے آداب سیکھے ہیں، وہ عورت کے ساتھ کھڑا کب ہوگا؟ وہ عورت نہیں جس کے عورت ہونے کی گواہی چار مردوں سے لینی پڑتی ہے۔ وہ عورت جس کے عورت ہونے کیلئے اس کا عورت ہونا ہی کافی ہے
فرنود عالم
 
Top