’غیر اخلاقی‘ پروگراموں پر پابندی کا مطالبہ

پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے والے مبینہ ’ فحش اور ناشائستہ‘ مواد پر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بہت عرصے سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
ان جماعتوں کا الزام ہے کہ یہ مواد پاکستانی معاشرے اور تہذیب کے برعکس ہے۔ گذشتہ دو روز سے اس معاملے کو قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا۔
بدھ کوسوال و جواب کے سیشن کے دوران ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے اپنے تحریری سوال میں وزیرِ اطلاعت و نشریات پرویز رشید سے پوچھا کہ ٹیلی وژن پر کون سے ’فحش‘ اشتہارات چلائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں وزارت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟
اپنے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ کسی بھی معاشرے اور تہذیب میں کوئی ایک شخص فحاشی کی تعریف پر اتفاق نہیں کرتا اور اس پر بحث مسلسل جاری ہے۔ ’دنیا بھر میں اس مسلے کا حل یہی سمجھا جاتا ہے کہ ریموٹ کے ذریعے چینل کو بدلا جائے۔‘
انھوں نے ایوان کو بتایا کہ نجی چینلز کے نگراں ادارے پیمرا نے کئی بار ایسے مواد کا نوٹس لیتے ہوئے جرمانے کی وصولی کرنے کی کوشش بھی کی۔
تحریری جواب کے مطابق گذشتہ تین برس میں 36 سیٹلائٹ چینلز کو جرمانے کا نوٹس دیا جا چکا ہے، جس کی وجہ فحش مواد، غیر ملکی مواد کی زیادتی اور غیر قانونی اشتہارات ہیں۔ ان جرمانوں کی قدر دس لاکھ اور پانچ لاکھ روپے کی ہے اور ان میں سے زیادہ تر چینلز انیٹرٹینمنٹ کے ہیں۔
وزیرِ اطلاعات نے بتایا ’پیمرا یہ جرمانے وصول نہیں کر پایا کیونکہ ٹی وی چینلز عدالت کے پاس جا کر حکمِ امتنائی حاصل کر لیتے ہیں۔‘
پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ پیمرا کے پاس نشریات سے قبل سینسر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ’میں علما سے گزارش کروں گا کہ وہ مساجد کے ذریعے لوگوں کو بتائیں کہ کیا دیکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔‘
منگل کو بھی جماعتِ اسلامی کے اراکینِ قومی اسمبلی نے نجی ٹی وی چینل جیو کے پروگرام پاکستان آئیڈل پر ایوان کی توجہ دلائی۔
جماعتِ اسلامی کے چار اراکین، صابزادہ طارق اللہ، شیر اکبر خان، صاحبزادہ محمد یعقوب اور عائشہ سیعد کا خیال تھا کہ اس پروگرام میں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ ساتھ گانے گاتے اور ناچتے ہیں اور اس سے نوجوان نسل پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
قومی اسمبلی میں ان چاروں اراکین کی قرارداد متفقہ طور پر منظور بھی ہوئی جس میں حکومت سے ’غیر اخلاقی‘ پروگراموں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
سنہ 2012 میں جماعتِ اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے سپریم کورٹ میں بھارتی چینلز، ’فحش‘ اشتہارات اور ڈراموں کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ اس کے علاوہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے بھی مبینہ طور پر ایسے پروگراموں کے خلاف درخواست دائر کی تھی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس کا از خود نوٹس لیا۔ اس وقت بھی پیمرا کے قائم مقام سربراہ عبدالجبار نے عدالت کو بتایا تھا کہ کسی بھی ملک میں فحاشی کی تعریف پر اتفاق نہیں ہو پایا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پاکستانی چینلز پر ایسے مواد کو فروغ دیا جاتا ہے جسے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیں تو شرم آ جاتی ہے۔
انھوں نے پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے نگراں ادارے پیمرا کے اس وقت کے سربراہ کو میڈیا سے وابسطہ تمام فریقین سے مشاورت کرنے کے بعد روک تھام کی ہدایت کی تھی۔ تاہم یہ معاملہ گذشتہ سال ٹھنڈا پڑھ گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/04/140402_pak_na_obscene_content_rwa.shtml
 
میں نے محسوس کیا ہے کہ مشرف کے دور سے اسٹبلشمنٹ نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ ٹی وی پر بے حیائی وغیرہ کی روک تھام کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔
ن لیگ کی موجودہ حکومت بھی اس پالیسی کو تبدیل کرنے میں فی الحال سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
بظاہر تو یہ پالیسی معاشرے میں انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ مذہبی لوگ اس سے مشتعل ہو رہے ہیں اور غیر مذہبی اسے اپنی انتہا پر جانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
نواز حکومت کو خوف زدہ ہونے کی بجائے بہادری سے اس پالیسی کو تبدیل کرنا چاہئے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ پیمرا کے پاس نشریات سے قبل سینسر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ’میں علما سے گزارش کروں گا کہ وہ مساجد کے ذریعے لوگوں کو بتائیں کہ کیا دیکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔

دنیا کا سب سے آسان کام یہ ہے کہ بال دوسروں کے کورٹ میں پھینک دی جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے محسوس کیا ہے کہ مشرف کے دور سے اسٹبلشمنٹ نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ ٹی وی پر بے حیائی وغیرہ کی روک تھام کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔

:)

نواز حکومت کو خوف زدہ ہونے کی بجائے بہادری سے اس پالیسی کو تبدیل کرنا چاہئے۔

نواز حکومت کس سے خوفزدہ ہے؟

اگر نواز حکومت اس پالیسی کو تبدیل نہیں کر سکی تو کیا اُسے بھی مشرف کی کیٹیگری میں رکھا جا سکتا ہے؟
 
:)



نواز حکومت کس سے خوفزدہ ہے؟

اگر نواز حکومت اس پالیسی کو تبدیل نہیں کر سکی تو کیا اُسے بھی مشرف کی کیٹیگری میں رکھا جا سکتا ہے؟
میں نے محسوس کیا ہے کہ نواز حکومت ایک مذہبی جماعت اور حکومت کی چھاپ سے خوف زدہ ہے۔ جو کہ پہلے ہی اس پر ہے ۔ غالباً یہ لوگ مغربی ممالک کے لئے اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لئے اس چھاپ کو ہٹانا چاہتے ہیں۔
مشرف کی کیٹگری میں تو نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ پالیسی انہوں نے شروع نہیں کی پہلے دور حکومت میں انہوں نے ٹی وی پر دوپٹہ پالیسی شروع کرائی تھی۔ مجبوروں کی کیٹگری میں رکھ سکتے ہیں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے محسوس کیا ہے کہ نواز حکومت ایک مذہبی جماعت اور حکومت کی چھاپ سے خوف زدہ ہے۔ جو کہ پہلے ہی اس پر ہے ۔ غالباً یہ لوگ مغربی ممالک کے لئے اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لئے اس چھاپ کو ہٹانا چاہتے ہیں۔
مشرف کی کیٹگری میں تو نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ پالیسی انہوں نے شروع نہیں کی پہلے دور حکومت میں انہوں نے ٹی وی پر دوپٹہ پالیسی شروع کرائی تھی۔ مجبوروں کی کیٹگری میں رکھ سکتے ہیں :)

چلیے ۔ اللہ اُنہیں ہمت دے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ کر بھی سکیں۔


مجبوروں کی کیٹگری میں رکھ سکتے ہیں :)

یعنی ہمارے اربابِ اختیار بھی مجبوروں کی کیٹیگری میں ہیں۔ :)
 
چلیے ۔ اللہ اُنہیں ہمت دے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ کر بھی سکیں۔




یعنی ہمارے اربابِ اختیار بھی مجبوروں کی کیٹیگری میں ہیں۔ :)
بالکل۔ یہ حکومت جو آپ کو نظر آتی ہے یہ ظاہری ہوتی ہے۔ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہوتی ہے۔ انکے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوتے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بالکل۔ یہ حکومت جو آپ کو نظر آتی ہے یہ ظاہری ہوتی ہے۔ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہوتی ہے۔ انکے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوتے۔

جب اسٹیبلشمینٹ نے اتنا کیا کہ نتائج اُلٹ کر الیکشن جتا دیا تو بعد میں اُسے کیا ہوا کہ بالکل ہی بیگانی بن گئی۔ :)
 
جب اسٹیبلشمینٹ نے اتنا کیا کہ نتائج اُلٹ کر الیکشن جتا دیا تو بعد میں اُسے کیا ہوا کہ بالکل ہی بیگانی بن گئی۔ :)
اگر آپ 2013 کے انتخابات کررہے ہیں تو آپ کی رائے درست نہیں۔ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ عمران کی سپورٹ میں تھی۔
ن کی سپورٹ انہوں نے 1990 میں کی تھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر آپ 2013 کے انتخابات کررہے ہیں تو آپ کی رائے درست نہیں۔ اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ عمران کی سپورٹ میں تھی۔
ن کی سپورٹ انہوں نے 1990 میں کی تھی۔

یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کی جماعت "عوامی ووٹ" کی مدد سے اسٹیبلشمینٹ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ ٹھیک؟
 

محمداحمد

لائبریرین
بالکل کافی حد تک یہ بات درست ہے۔

یعنی ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کو شکست دینے کے باوجود نفسیاتی طور پر ابھی بھی اسٹیبلشمینٹ کے دباؤ میں ہے، اور اپنے من چاہے فیصلے کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ جس کے لئے انہوں نے "عوام" سے ووٹ لئے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے پاکستان کی کوئی بھی جماعت اگر اپنے بیان کردہ منشور پر عمل کرے یا کم از کم عمل کرنے کی کوشش کرے تو اُس سے اچھی جماعت کوئی نہیں ہو سکتی۔

لیکن افسوس پاکستان میں ایک بھی ایسی جماعت نظر نہیں آتی جو پیچھے مُڑ کر اپنے منشور پر نظر ڈالے۔
 
Top