’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘

’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2020
Facebook Count
Twitter Share

0
Translate
5f7c51392a8c6.jpg

سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن—تصویر اسکرین گریب
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ انہیں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھی اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے لاہور بھیجا گیا جہاں مجھے مواد دیا گیا لیکن میں نے یہی کہا کہ یہ صوبائی اینٹی کرپشن کرسکتی ہے ایف آئی اے نہیں کرسکتی۔

صحافی نے سوال کیا کہ وزیراعظم عمران خان آپ سے کیا چاہتے تھے جو آپ پورا نہیں کررہے تھے جس پر بشیر میمن نے جواب دیا کہ ’جو جو نیب نے کیا وہی‘۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے درمیان میں آنے سے مجھ پر دباؤ دور ہوگیا وہ میرے محسن ہیں کیوں کہ اب نیب کے مقدمات پر عدالتی فیصلوں کو سن کر میں سوچتا ہوں کہ خدا نے میری عزت بچانی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن احتجاجاً ملازمت سے مستعفی

ایک سوال کے جواب میں سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ’مجھے پاکستان کے سب سے اعلیٰ دفتر میں بلا کر سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر جاری ہونے کی وجہ سے مریم نواز کے سوشل میڈیا کے سیل پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن میں نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ اس پر کس قانون کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ ہوسکتا ہے‘۔

خواجہ آصف کے کیس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بشیر میمن نے بتایا کہ وہ وزیر دفاع تھے اور دبئی کی ایک کمپنی سے تنخواہ حاصل کرنے پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا پرچہ کروانے کا کہا گیا جس کی انکوائری کرنے کا حکم کابینہ نے دیا تھا تاہم ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمرے پر جانے کے لیے چھٹی لی ہوئی تھی کہ اس سے 2 روز قبل مجھے وزیراعظم کے دفتر میں بلایا گیا جہاں ان کے پرنسپل سیکریٹری موجود تھے جبکہ میں اپنے ساتھ اپنے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو لے کر گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کے الیکٹرک کی بدحالی پر بات ہوئی جس پر میں نے کہا کہ کے الیکٹرک پر سوئی سدرن کے 87 ارب روپے واجب الادا ہیں لیکن کہا گیا کہ ابراج گروپ تباہ ہوگئی ہے اور ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات کر کے بہت غلط کیا۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کے سابق چیف کی پینشن روکنے کا نوٹی فکیشن معطل

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وزیراعظم کا نام لیے بغیر کہا کہ انہوں نے کے الیکٹرک کا کئی مرتبہ ذکر کیا اور کہا کہ آپ نے اسے تباہ کردیا۔

وزیراعظم کی ناراضی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق ڈی جی ایف آئی اے نے تائید کی کہ مسلم لیگ (ن) بالخصوص شریف خاندان کے خلاف مقدمات نہ درج کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ آپ نے یہ نہیں کیا وہ نہیں کیا لیکن میں نے انہیں جواب دیا کہ اس قسم کے مقدمات کے لیے نیب ہے ان سے کروالیں۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ایک رکن قومی اسمبلی خواجہ سہیل منصور کو منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک نوٹس دیا گیا تھا جس پر انہوں نے ایوان میں خاصی تنقید کی تھی چنانچہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلا کر کہا کہ آپ نے انہیں نوٹس دیا ہے وہ ہمیں ہاؤس نہیں چلانے دیتے۔

جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ سر نوٹس دینا ہمارا کام ہے ایوان چلانا آپ کا کام ہے جس پر وہ ناراض ہونے کے بجائے خاصے خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کی۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاستدانوں کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہاں سننے کے عادی ہوجاتے ہیں اور آپ جیسے افسروں کو ڈھونڈتے نہیں ہیں لیکن اگر آپ جیسے افسر پاکستان کو مل جائیں تو پاکستان ترقی کرے۔

موجودہ وزیراعظم سے ہونے والی آخری ملاقات کے بارے میں بشیر میمن نے بتایا کہ وہ خواجہ آصف، مریم نواز، اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر خاصے جذباتی ہوگئے لیکن میں نے انہیں یہ کہا کہ میری ملازمت کے 3 ماہ باقی ہیں اور 22 گریڈ سے بڑا گریڈ کوئی نہیں اس لیے معاملات اسی طرح چلیں گے جیسے چل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے سربراہ سے ’خود کار‘ سفری پابندیوں پر سوالات

بشیر میمن نے کہا کہ 16 دسمبر کو مجھے ریٹائر ہونا تھا لیکن 2 دسمبر کو میرا تبادلہ کردیا گیا جو عموماً نہیں ہوتا لیکن اس سے قبل میں 3 سے ساڑھے 3 ماہ میں جبری چھٹی پر تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے عمرے پر جانے کے لیے چھٹی لی ہوئی تھی لیکن جب واپس آیا تو جس کی حکومت ہے اس نے مجھے 15 روز کی چھٹی پر بھیج دیا اور اس کے بعد ہر 15ویں روز چھٹی مل جاتی تھی اور میں ایک طرح سے گھر میں ہی بیٹھا ہوا تھا تاہم جب اگلے 15 روز کی چھٹی کی منظوری نہیں آئی تو میں نے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان سے پوچھا تو انہوں نے دفتر بلا لیا۔

بشیر میمن کے مطابق جب دوبارہ دفتر آیا تو تیسرے روز میرا تبادلہ کردیا گیا حالانکہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے میرے تبادلے پر حکم امتناع جاری کیا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود تبادلہ کردیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا کہتے وقت اپنے احساسات سے متعلق انہوں نے کہا کہ 'سرکاری افسران اس طرح کی باتیں سننے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے مجھے کوئی حیرانی نہیں تھی، میرے خیال میں یہ بات کسی شخص کی نہیں بلکہ کرسی کی طاقت کی ہے۔'

صحافیوں کے خلاف سائبر کرائم قانون کے استعمال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے ایک آلہ رہی ہے کہ جس کو چاہو پکڑ لو، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے قبل سیکریٹری داخلہ کی طرف سے سعودی ولی عہد کے خلاف ٹوئٹر پر تصاویر لگانے والے صحافیوں کے حوالے سے معاملہ آیا تھا، میں نے انہیں کہا کہ یہ مناسب نہیں رہے گا، دوسرے یا تیسرے دن شیریں مزاری نے مجھ سے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بعد میں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ایک بار صحافی احمد نوروانی کی جانب سے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے خلاف ٹوئٹ کی گئی جس پر وزیر داخلہ نے مجھے اپنے دفتر بلایا، میں نے انہیں بتایا یہ قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے اور انہیں کارروائی کے لیے قانونی طریقہ بتایا کہ آپ کو عدالت جانا پڑے گا، جس پر اعجاز شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کیوں عدالت جاؤں اور صحافی کی ٹانگیں توڑ دو، میری طرف سے وضاحت کے بعد انہوں نے مجھے کبھی فون یا طلب نہیں کیا۔

اصغر خان کیس کی تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'میں نے جو آخری رپورٹ جمع کرائی تھی اس میں لکھا تھا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کس نے پیسے دیے، کب اور کس کو دیے، ثبوت نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جس نے پیسے بانٹے وہ پاکستان سے بھاگ گیا۔'

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے کیس میں تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کو خصوصی ہدایات دیے جانے کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے کوئی ہدایات نہیں آئیں نہ کسی نے مقدمہ واپس لینے کا کہا۔'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی تیاری کے حوالے سے بشیر میمن نے کہا کہ 'ریفرنس کی تیاری میں ایف آئی اے کا کوئی کردار نہیں ہے، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات کر ہی نہیں سکتا۔'
 

جاسم محمد

محفلین
’خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا‘
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2020
Facebook Count
Twitter Share

0
Translate
5f7c51392a8c6.jpg

سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن—تصویر اسکرین گریب
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ خاتون اول کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کی وجہ سے انہیں مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت ملی تھی۔

معروف صحافی مطیع اللہ جان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ انہیں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ان کے اہلخانہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انکار کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس انکوائریز نہیں تھی اور یہ صوبائی معاملہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے لاہور بھیجا گیا جہاں مجھے مواد دیا گیا لیکن میں نے یہی کہا کہ یہ صوبائی اینٹی کرپشن کرسکتی ہے ایف آئی اے نہیں کرسکتی۔

صحافی نے سوال کیا کہ وزیراعظم عمران خان آپ سے کیا چاہتے تھے جو آپ پورا نہیں کررہے تھے جس پر بشیر میمن نے جواب دیا کہ ’جو جو نیب نے کیا وہی‘۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے درمیان میں آنے سے مجھ پر دباؤ دور ہوگیا وہ میرے محسن ہیں کیوں کہ اب نیب کے مقدمات پر عدالتی فیصلوں کو سن کر میں سوچتا ہوں کہ خدا نے میری عزت بچانی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن احتجاجاً ملازمت سے مستعفی

ایک سوال کے جواب میں سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ’مجھے پاکستان کے سب سے اعلیٰ دفتر میں بلا کر سوشل میڈیا پر خاتون اول کی تصویر جاری ہونے کی وجہ سے مریم نواز کے سوشل میڈیا کے سیل پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن میں نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ اس پر کس قانون کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ ہوسکتا ہے‘۔

خواجہ آصف کے کیس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بشیر میمن نے بتایا کہ وہ وزیر دفاع تھے اور دبئی کی ایک کمپنی سے تنخواہ حاصل کرنے پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کا پرچہ کروانے کا کہا گیا جس کی انکوائری کرنے کا حکم کابینہ نے دیا تھا تاہم ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمرے پر جانے کے لیے چھٹی لی ہوئی تھی کہ اس سے 2 روز قبل مجھے وزیراعظم کے دفتر میں بلایا گیا جہاں ان کے پرنسپل سیکریٹری موجود تھے جبکہ میں اپنے ساتھ اپنے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو لے کر گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں کے الیکٹرک کی بدحالی پر بات ہوئی جس پر میں نے کہا کہ کے الیکٹرک پر سوئی سدرن کے 87 ارب روپے واجب الادا ہیں لیکن کہا گیا کہ ابراج گروپ تباہ ہوگئی ہے اور ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات کر کے بہت غلط کیا۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کے سابق چیف کی پینشن روکنے کا نوٹی فکیشن معطل

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے وزیراعظم کا نام لیے بغیر کہا کہ انہوں نے کے الیکٹرک کا کئی مرتبہ ذکر کیا اور کہا کہ آپ نے اسے تباہ کردیا۔

وزیراعظم کی ناراضی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق ڈی جی ایف آئی اے نے تائید کی کہ مسلم لیگ (ن) بالخصوص شریف خاندان کے خلاف مقدمات نہ درج کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ آپ نے یہ نہیں کیا وہ نہیں کیا لیکن میں نے انہیں جواب دیا کہ اس قسم کے مقدمات کے لیے نیب ہے ان سے کروالیں۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے ایک رکن قومی اسمبلی خواجہ سہیل منصور کو منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک نوٹس دیا گیا تھا جس پر انہوں نے ایوان میں خاصی تنقید کی تھی چنانچہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بلا کر کہا کہ آپ نے انہیں نوٹس دیا ہے وہ ہمیں ہاؤس نہیں چلانے دیتے۔

جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ سر نوٹس دینا ہمارا کام ہے ایوان چلانا آپ کا کام ہے جس پر وہ ناراض ہونے کے بجائے خاصے خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کی۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاستدانوں کی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہاں سننے کے عادی ہوجاتے ہیں اور آپ جیسے افسروں کو ڈھونڈتے نہیں ہیں لیکن اگر آپ جیسے افسر پاکستان کو مل جائیں تو پاکستان ترقی کرے۔

موجودہ وزیراعظم سے ہونے والی آخری ملاقات کے بارے میں بشیر میمن نے بتایا کہ وہ خواجہ آصف، مریم نواز، اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر خاصے جذباتی ہوگئے لیکن میں نے انہیں یہ کہا کہ میری ملازمت کے 3 ماہ باقی ہیں اور 22 گریڈ سے بڑا گریڈ کوئی نہیں اس لیے معاملات اسی طرح چلیں گے جیسے چل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے سربراہ سے ’خود کار‘ سفری پابندیوں پر سوالات

بشیر میمن نے کہا کہ 16 دسمبر کو مجھے ریٹائر ہونا تھا لیکن 2 دسمبر کو میرا تبادلہ کردیا گیا جو عموماً نہیں ہوتا لیکن اس سے قبل میں 3 سے ساڑھے 3 ماہ میں جبری چھٹی پر تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے عمرے پر جانے کے لیے چھٹی لی ہوئی تھی لیکن جب واپس آیا تو جس کی حکومت ہے اس نے مجھے 15 روز کی چھٹی پر بھیج دیا اور اس کے بعد ہر 15ویں روز چھٹی مل جاتی تھی اور میں ایک طرح سے گھر میں ہی بیٹھا ہوا تھا تاہم جب اگلے 15 روز کی چھٹی کی منظوری نہیں آئی تو میں نے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان سے پوچھا تو انہوں نے دفتر بلا لیا۔

بشیر میمن کے مطابق جب دوبارہ دفتر آیا تو تیسرے روز میرا تبادلہ کردیا گیا حالانکہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے میرے تبادلے پر حکم امتناع جاری کیا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود تبادلہ کردیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا کہتے وقت اپنے احساسات سے متعلق انہوں نے کہا کہ 'سرکاری افسران اس طرح کی باتیں سننے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے مجھے کوئی حیرانی نہیں تھی، میرے خیال میں یہ بات کسی شخص کی نہیں بلکہ کرسی کی طاقت کی ہے۔'

صحافیوں کے خلاف سائبر کرائم قانون کے استعمال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے ایک آلہ رہی ہے کہ جس کو چاہو پکڑ لو، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے قبل سیکریٹری داخلہ کی طرف سے سعودی ولی عہد کے خلاف ٹوئٹر پر تصاویر لگانے والے صحافیوں کے حوالے سے معاملہ آیا تھا، میں نے انہیں کہا کہ یہ مناسب نہیں رہے گا، دوسرے یا تیسرے دن شیریں مزاری نے مجھ سے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بعد میں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

سابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ایک بار صحافی احمد نوروانی کی جانب سے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے خلاف ٹوئٹ کی گئی جس پر وزیر داخلہ نے مجھے اپنے دفتر بلایا، میں نے انہیں بتایا یہ قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے اور انہیں کارروائی کے لیے قانونی طریقہ بتایا کہ آپ کو عدالت جانا پڑے گا، جس پر اعجاز شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کیوں عدالت جاؤں اور صحافی کی ٹانگیں توڑ دو، میری طرف سے وضاحت کے بعد انہوں نے مجھے کبھی فون یا طلب نہیں کیا۔

اصغر خان کیس کی تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'میں نے جو آخری رپورٹ جمع کرائی تھی اس میں لکھا تھا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کس نے پیسے دیے، کب اور کس کو دیے، ثبوت نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جس نے پیسے بانٹے وہ پاکستان سے بھاگ گیا۔'

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے کیس میں تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کو خصوصی ہدایات دیے جانے کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے کوئی ہدایات نہیں آئیں نہ کسی نے مقدمہ واپس لینے کا کہا۔'

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی تیاری کے حوالے سے بشیر میمن نے کہا کہ 'ریفرنس کی تیاری میں ایف آئی اے کا کوئی کردار نہیں ہے، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات کر ہی نہیں سکتا۔'
بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے ہاتھ دھونے کے بعد سابق وزرا اعظم، جج، جرنیل، بیروکریٹس، سفیروں وغیرہ کے منہ پھٹی جوتی کی طرح کھل جاتے ہیں۔ کوئی انٹرویو دے کر اپنے اندر کا غبار نکال رہا ہوتا ہے تو کوئی کتاب لکھ کر دل کے پھپھولے پھوڑتا ہے۔
جب اللہ نے آپ کو طاقت دی، اقتدار دیا، اختیار دیا اس وقت تو آپ ہونٹ سی کر پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہے۔ اور اب ریٹائر ہو کر کسی کام کے نہیں رہے تو ملک کا ہر ادارہ و محکمہ اور اس میں کام کرنے والے لوگ برے ہو گئے۔ جو مکا لڑائی کے بعد مارنا یاد آئے اسے اپنے منہ پر ہی مار لینا چاہیے۔ ہم ان انکشافات سے متاثر ہونے والے نہیں۔ کیونکہ جب آپ کو دوران اقتدار یا ملازمت ان چیزوں کو پبلک کرنا چاہیے تھا، آپ چپ رہے اس لئے آپ نظام کی خرابی میں برابر کے شریک ہیں۔ بعد از نوکری ان انکشافات سے نظام میں بہتری نہیں آتی۔ نظام میں کام کرتے وقت یہ غلط کام افشاں کرنے سے نظام بہتر ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:
بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے ہاتھ دھونے کے بعد سابق وزرا اعظم، جج، جرنیل، بیروکریٹس، سفیر کے منہ پھٹی جوتی کی طرح کھل جاتے ہیں۔ کوئی انٹرویو دے کر اپنے اندر کا غبار نکال رہا ہوتا ہے تو کوئی کتاب لکھ کر دل کے پھپھولے پھوڑ تو رہا ہے۔
جب اللہ نے آپ کو طاقت دی، اقتدار دیا، اختیار دیا اس وقت آپ ہونٹ سی کر پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہے۔ اور اب ریٹائر ہو کر کسی کام کے نہیں رہے تو ملک کا ہر ادارہ اور محکمہ اور اس میں کام کرنے والے برے ہو گئے۔ جو مکا لڑائی کے بعد مارنا یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ ہم ان انکشافات سے متاثر ہونے والے نہیں۔ کیونکہ جب آپ کو دوران اقتدار یا ملازمت ان چیزوں کو پبلک کرنا چاہیے تھا، آپ چپ رہے اس لئے آپ نظام کی خرابی میں برابر کے مجرم ہیں۔
شاید انہوں نے حکم قبول نہ کرتے ہوئے استعفیٰ دیا تھا؟
 

جاسم محمد

محفلین
شاید انہوں نے حکم قبول نہ کرتے ہوئے استعفیٰ دیا تھا؟
دوبارہ پڑھ لیں۔ ان کی مدت ملازمت جب ختم ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے تو “اصولا” استعفی دے دیا۔ :)
ویسے اصولا استعفی دینا ہی نہیں چاہیے۔ اگر کسی سرکاری افسر سے کوئی وزیر غلط کام کروانا چاہ رہا ہے تو اسے خود میڈیا میں جا کر ایکسپوز کرنا چاہیے۔ نہ کہ اس وقت خاموش رہ کر جلتا کڑھتا رہے اور ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مشہور ہونے کیلئے انکشافات شروع کر دے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس رپورٹر کا سوفٹ ویئر تبدیل نہ ہوسکا بلکہ ہارڈویئر ہی کرپٹ ہوگا۔ یہ تو ہاتھ دھوکر پیچھے پڑگیا ہے سیلیکٹڈ کے!
ایک شخص پوری ریاست سے نہیں لڑ سکتا۔ اس نڈر صحافی کے خلاف ابھی بھی ججز کی توہین والا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ ایک ٹویٹ میں اس نے سپریم کورٹ کے ۷ ججز پر اپنے ساتھی جج فائز عیسی کے خلاف جانبدار فیصلہ دینے کا الزام لگایا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کے خلاف تو آرٹیکل سکس لگنا چاہیے
توہین عدالت کا آرٹکل اتنا سخت نہیں ہے۔ اس پر زیادہ سے زیادہ نااہلی ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے اسے سزا کے طور پر صحافی رہنے کا حق چھین لیا جائے۔ یا کم سے کم سزا جرمانہ و چند ماہ جیل ہو سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کا احتسابی بیانیہ دراصل اپوزیشن سے انتقامی بیانہ ہے۔ اس لئے جسے بھی احتساب کے ادارے پکڑیں وہ ملک چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، عدالتوں سے تاریخ پہ تاریخ لے کر کیس کو لٹکاتا ہے یا سیدھا پہلی پیشی پر ہی اقبال جرم کر لیتا ہے۔ اس وقت کرپشن کیسز کے اکثر ملزمان ضمانتوں پر رہا ہیں۔ جن سے انتقام لیا جاتا ہے ان کو کھلا چھوڑا نہیں جاتا۔ یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالتو ں کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں؟
مخدوم امین فہیم کے بیٹے پر کرپشن کا الزام ثابت، 10 سال کیلئے نا اہل قرار
 
Top