’ایمرجنسی کا فیصلہ صرف مشرف کا تھا‘: مشرف کےوکیل کا عدالت میں بیان

پہلے مشرف کے وکلا کا موقف تھا کہ ایمرجنسی اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خفیہ خط پر لگائی گئی تھی جو اُس وقت کی عدلیہ کی رویے کے بارے میں تھا
پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستّی نے کہا ہے کہ تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا فیصلہ ان کے موکل کا تھا جو انھوں نے اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت کیا۔
مشرف ’شریکِ جرم‘ افراد کےنام بتا سکتے ہیں: پراسیکیوٹر
سپریم کورٹ کے 31 جولائی سنہ 2007 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے ایڈوکیٹ ابراہیم ستی نے کہا کہ ’پرویز مشرف نے 2007 میں ایمرجنسی اپنے صوابدیدی اختیار سے تحت لگائی تھی، حالانکہ اس وقت کے وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے ان کے سامنے محض سکیورٹی کی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کیا تھا۔‘
ابراہیم ستی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’اس وقت عدلیہ کے علاوہ تمام ادارے آئین کے مطابق چل رہے تھے اور اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ کے جج خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے تھے۔‘
ابراہیم ستی کے دلائل پر عدالت نے کہا ’آپ نے تو ہمارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔ کیونکہ غداری کا مقدمہ صرف پرویز مشرف کے خلاف ہی ہے۔‘
صاف گوئی کا شکریہ
آپ نے تو ہمارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔ کیونکہ غداری کا مقدمہ صرف پرویز مشرف کے خلاف ہی ہے۔ "عدالت
عدالت نے ان کی صاف گوئی کا شکریہ ادا کیا۔
ابراہیم ستی نے کہا 1958 کے بعد جتنے مارشل لا لگے ان کی توثیق ہوتی رہی۔ جس پر عدالت کا جواب تھا ’آپ کے موکل نے فرض کر لیا تھا کہ ان کے اقدامات کی بھی توثیق ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا تین نومبر 2007 کے اقدامات کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کے جس سات رکنی بینچ حکم جاری کیا تھا اس میں جسٹس رانا بھگوان داس شامل تھے، انہوں نے تین نومبر کے بجائے پانچ نومبر کو حکم نامے پر دستخط کیے۔
اس پر بدھ کو بینچ میں موجود جسٹس ناصر ملک نے کہا کہ ایسا نہیں ہے: ’میں بھی اس سات بینچ میں شامل تھا جس نے ایمرجنسی روکنے سے متعلق احکامات دیے تھے اور میری موجودگی میں ہی رانا بھگوان نے حکم نامے پر تین نومبر کو دستخط کیے۔‘
عدالت کی کارروائی جاری ہے جس میں پرویز مشرف کے وکلا میں شامل شریف الدین پیرزادہ عدلیہ کے تعصب کے بارے میں دلائل دیں گے۔
اس سے پہلے گذشتہ روز کی سماعت میں پرویز مشرف کےخلاف غداری کےمقدمےکے پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ سابق فوجی حکمران کے خلاف دستاویزی ثبوتوں کی بنیاد پر غداری کا مقدمہ دائر کیاگیا ہے اور اگر جنرل مشرف اپنے ساتھ شریک دوسرے افراد کے نام جانتے ہیں تو وہ عدالت کو بتا سکتے ہیں۔
"
اس وقت عدلیہ کے علاوہ تمام ادارے آئین کے مطابق چل رہے تھے اور اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ کے جج خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے تھے۔"
ابراہیم ستی
اُنھوں نے کہا کہ مشرف اس مقدمے میں دیگر افراد کے نام اور ثبوت بھی عدالت میں پیش کرسکتے ہیں جنھوں نے تین نومبر سنہ 2007 کے اقدامات میں اُن کا ساتھ دیا تھا۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تین نومبر2007 کے اقدامات پر صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے فیصلے کو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا۔
ربط
 
جب وکیل کو پتہ ہے اس بات کا کہ سارا فساد مشرف کی ذات کا ہی تھا تو نظر ثانی کا کیس کر نے ضرورت ہی کیا تھی؟ شاید ستی صاحب کی وکالت مشرف کو مہنگی پڑے گی۔ یا اگلے دن کوئی اور مؤقف سامنے آجائے۔
 
Top