’آئی جی کا تبادلہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر کیا‘؛ سپریم کورٹ نے تبادلہ روک دیا

جاسم محمد

محفلین
’آئی جی کا تبادلہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر کیا‘؛ سپریم کورٹ نے تبادلہ روک دیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کے 'زبانی حکم' پر جاری کیا گیا آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور اٹارنی جنرل کو کل طلب کرلیا۔

آج چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ازخود نوٹس لے کر سیکریٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل کو فوری طور پر عدالت میں طلب کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی تھی کہ کن وجوہات کی بناء پر آئی جی کو گزشتہ روز اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔

معلوم ہوا ہےکہ کسی وزیر کی سفارش پر آئی جی کا تبادلہ کیا گیا: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہمیں یہ معلوم ہوا ہےکہ کسی وزیر کی سفارش پر آئی جی کا تبادلہ کیا گیا، ہم اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے اور پولیس میں سیاسی مداخلت بھی برداشت نہیں کریں گے، قانون کی حکمرانی قائم ہوگی۔

معزز چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بھی پتا چلا ہےکہ کسی وزیر کے بیٹے کا مسئلہ تھا اس وجہ سے آئی جی کو ہٹایا گیا، آپ کو نہیں معلوم کہ آئی جی کا سواتی کے ساتھ جھگڑا چل رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے آئی جی کے تبادلے کا ریکارڈ پیش کردیا

بعدازاں اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا۔

اس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، 'آپ نے سچ بولا ہے یا نہیں ہم اس معاملے پر کمیٹی بنائیں گے، ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے، ہم نے عثمان بزدار کو یہاں پر بلایا تھا‘۔

کیا یہ ہے نیا پاکستان؟پاکستان کواس طرح نہیں چلنا: چیف جسٹس برہم
جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا یہ ہے نیا پاکستان؟پاکستان کواس طرح نہیں چلنا، ہم اس طرح ملک کو نہیں چلانے دیں گے، پاکستان کسی کی مرضی سے نہیں، کسی کی ڈکٹیشن اور دھونس پر نہیں قانون کے مطابق چلے گا‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیکریٹری داخلہ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ آپ ریاست کے ملازم ہیں، آپ غلط حکم ماننے سے انکار کردیں‘۔

سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔

دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی کل دوبارہ طلب کرلیا۔

سیکریٹری داخلہ کے تاخیر سے آنے پر عدالت برہم

اس سے قبل عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان چند گھنٹوں کی تاخیر سے عدالت پہنچے تو چیف جسٹس پاکستان نے ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آمد کی اطلاع ہمیں دی گئی، عدالت لگی تو آپ غائب ہو گئے، کیا ججز آپ کا انتظار کرنے کے پابند ہیں؟

آئی جی کا تبادلہ مجھ سے پوچھے بغیر کیا گیا: سیکریٹری داخلہ کا انکشاف
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں آئی جی اسلام آباد کو کیوں تبدیل کیا گیا؟ اس پر سیکریٹری داخلہ نے انکشاف کیا کہ آئی جی کو ہٹانے سے پہلے کسی نے مجھے نہیں بتایا، تبادلہ براہ راست سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے سیکریٹری کے جواب پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں اور آپ کے آئی جی کو ہٹا دیا گیا، آپ سے پوچھا ہی نہیں گیا۔

آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ

واضح رہےکہ گزشتہ روز آئی جی اسلام آباد جان محمد کو اچانک عہدے سے ہٹادیا گیا اور اس سے متعلق اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ آئی جی کو ایک وفاقی وزیر کی ہدایت نہ ماننے پر ہٹایا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پنجاب کے آئی جی پولیس طاہر خان کو ایک ماہ 2 دن بعد ہی تبدیل کردیا تھا اور ان کی جگہ سابق آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی کو تعینات کیا تھا۔

اس کے علاوہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا بھی اچانک تبادلہ کیا گیا تھا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس لیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بعدازاں اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا۔
اس پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، 'آپ نے سچ بولا ہے یا نہیں ہم اس معاملے پر کمیٹی بنائیں گے، ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے، ہم نے عثمان بزدار کو یہاں پر بلایا تھا‘۔
چیف جسٹس صاحب عمران خان کو عدالت میں بلا کر کلاس لیں اور سزا دیں۔ ڈرامہ بازی بند کریں۔
 

فرقان احمد

محفلین
چیف جسٹس صاحب عمران خان کو عدالت میں بلا کر کلاس لیں اور سزا دیں۔ ڈرامہ بازی بند کریں۔
اب اپ قانون کی پاسداری کریں؛ کم از کم اسے ڈراما بازی تو نہ کہیں۔ چیف جسٹس کے ایک تبصرے پر اس قدر غصہ! دھیرج مہاراج دھیرج! :) یہ تو صرف ایک ٹریلر ہے۔۔۔! آپ ابھی سے گھبرا گئے۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس کے ایک تبصرے پر اس قدر غصہ! دھیرج مہاراج دھیرج!
ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے، ہم نے عثمان بزدار کو یہاں پر بلایا تھا‘۔
کیا یہ ہے نیا پاکستان؟پاکستان کواس طرح نہیں چلنا: چیف جسٹس برہم
جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا یہ ہے نیا پاکستان؟پاکستان کواس طرح نہیں چلنا، ہم اس طرح ملک کو نہیں چلانے دیں گے، پاکستان کسی کی مرضی سے نہیں، کسی کی ڈکٹیشن اور دھونس پر نہیں قانون کے مطابق چلے گا‘۔
چیف جسٹس صاحب نے بالکل درست بات کہی ہے۔ لیکن اگر وہ بزدار کیس کی طرح معافی نامہ لے کر کیس ختم کر دیں گے تو نظام کی اصلاح نہیں ہوگی۔ سزائیں دیں۔ بزدار کو بھی اور عمران خان کو بھی۔ تب ہی نظام صحیح معنوں میں درست ہوگا۔
 

فرقان احمد

محفلین
چیف جسٹس صاحب نے بالکل درست بات کہی ہے۔ لیکن اگر وہ بزدار کیس کی طرح معافی نامہ لے کر کیس ختم کر دیں گے تو نظام کی اصلاح نہیں ہوگی۔ سزائیں دیں۔ بزدار کو بھی اور عمران خان کو بھی۔ تب ہی نظام صحیح معنوں میں درست ہوگا۔
معافی مانگی جائے تو عدالت عام طور پر معاف کر دیتی ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ کسی کو جیل میں بند کر دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب اپ قانون کی پاسداری کریں؛ کم از کم اسے ڈراما بازی تو نہ کہیں۔ چیف جسٹس کے ایک تبصرے پر اس قدر غصہ! دھیرج مہاراج دھیرج! :) یہ تو صرف ایک ٹریلر ہے۔۔۔! آپ ابھی سے گھبرا گئے۔۔۔! :)
متعلقہ:
وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کے بیٹے کی درخواست پر گرفتار 12 سالہ بچہ رہا
192237_4125157_updates.jpg

آج پولیس نے 12 سالہ ضیاء الدین کو رہا کردیا—۔جیو نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر اعظم سواتی کے بیٹے کی جانب سے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج کروائے گئے مقدمے کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے 12 سالہ بچے کو پولیس نے رہا کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اعظم سواتی کے بیٹے کی جانب سے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں دی گئی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ چند ملزمان نے اپنے مویشی ان کے باغات میں چھوڑ دیئے اور منع کرنے پر ملازمین پر کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا، گن مین سےکلاشنکوف کے میگزین چھینے اور زدوکوب کیا۔

جس کے بعد تھانہ شہزاد ٹاؤن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے خیمہ بستی سے چوتھی جماعت کے طالبعلم 12 سالہ ضیاء الدین، اس کی والدہ اور 15 سالہ بہن سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

تاہم آج پولیس نے 12 سالہ ضیاء الدین کو رہا کردیا۔

رہائی کے بعد میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے ضیاء الدین نے بتایا کہ وہ جمعے کی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا کہ ان کی گائے فارم ہاؤس میں چلی گئی، جہاں کے ملازمین نے اسے وہیں باندھ دیا۔

ضیاء الدین کے مطابق جب اس نے گائے واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو ملازمین نےکہا کہ خان نے گائے باندھی ہے، اسی سے واپس لو۔

بچے کے مطابق ہم اپنی گائےکھول کر واپس آئے تو یہ لوگ ڈنڈے لے کر ہمارےگھر آگئے اور انہوں نے میری ماں اور بہن کو مارا پیٹا اور بعدازاں تھانہ شہزاد ٹاؤن میں ہمارے خلاف درخواست دے دی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو باربار فون کیا، لیکن انہوں نے فون نہیں سنا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ملازمین پر حملہ ہوا تو انہوں نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کے لیے کوئی اثرورسوخ استعمال نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی جی اسلام آباد جان محمد کو اچانک عہدے سے ہٹادیا گیا تھا، اس حوالے سے اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ آئی جی کو ایک وفاقی وزیر کی ہدایات نہ ماننے پر ہٹایا گیا تھا، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آج ازخود نوٹس لے لیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
متعلقہ:
وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کے بیٹے کی درخواست پر گرفتار 12 سالہ بچہ رہا
192237_4125157_updates.jpg

آج پولیس نے 12 سالہ ضیاء الدین کو رہا کردیا—۔جیو نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر اعظم سواتی کے بیٹے کی جانب سے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج کروائے گئے مقدمے کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے 12 سالہ بچے کو پولیس نے رہا کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اعظم سواتی کے بیٹے کی جانب سے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں دی گئی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ چند ملزمان نے اپنے مویشی ان کے باغات میں چھوڑ دیئے اور منع کرنے پر ملازمین پر کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا، گن مین سےکلاشنکوف کے میگزین چھینے اور زدوکوب کیا۔

جس کے بعد تھانہ شہزاد ٹاؤن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے خیمہ بستی سے چوتھی جماعت کے طالبعلم 12 سالہ ضیاء الدین، اس کی والدہ اور 15 سالہ بہن سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

تاہم آج پولیس نے 12 سالہ ضیاء الدین کو رہا کردیا۔

رہائی کے بعد میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے ضیاء الدین نے بتایا کہ وہ جمعے کی نماز پڑھنے گیا ہوا تھا کہ ان کی گائے فارم ہاؤس میں چلی گئی، جہاں کے ملازمین نے اسے وہیں باندھ دیا۔

ضیاء الدین کے مطابق جب اس نے گائے واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو ملازمین نےکہا کہ خان نے گائے باندھی ہے، اسی سے واپس لو۔

بچے کے مطابق ہم اپنی گائےکھول کر واپس آئے تو یہ لوگ ڈنڈے لے کر ہمارےگھر آگئے اور انہوں نے میری ماں اور بہن کو مارا پیٹا اور بعدازاں تھانہ شہزاد ٹاؤن میں ہمارے خلاف درخواست دے دی۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو باربار فون کیا، لیکن انہوں نے فون نہیں سنا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ملازمین پر حملہ ہوا تو انہوں نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کے لیے کوئی اثرورسوخ استعمال نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی جی اسلام آباد جان محمد کو اچانک عہدے سے ہٹادیا گیا تھا، اس حوالے سے اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ آئی جی کو ایک وفاقی وزیر کی ہدایات نہ ماننے پر ہٹایا گیا تھا، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے آج ازخود نوٹس لے لیا۔
آئی جی اسلام آباد کو ہٹائے جانے کی کیا یہی ایک وجہ ہے؛ اس حوالے سے ابھی تحقیقات ہونا باقی ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان کے تبادلے کی سمری تین ہفتے قبل وزیراعظم پاکستان کو بھجوا دی گئی تھی۔ چیف جسٹس کو اس حوالے سے مکمل تحقیقات کروا کر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ کسی کو جیل میں بند کر دیا جائے۔
یہی تو ہمارا بنیادی اختلاف ہے کہ جہاں کہیں اختیارات سے تجاوز کیا جاتا ہے۔ قوم و عدالت اسے بڑا جرم نہ سمجھ کر معاف کر دیتی ہے۔ حالانکہ مہذب دنیا میں ایسا کرنے پر سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ آگے، ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔
اگر عدالت نے بزدار کیس میں "گجر" کو پکڑا ہوتا تو آج اس "سواتی" کی جرات نہ ہوتی کہ وزیر اعظم کے ذریعہ غیرقانونی کام کروائے۔ نئے پاکستان کی راہ میں رکاوٹ ادارے نہیں یہی پرانے پاکستانی ہیں۔ جنہیں خان صاحب نے ضرورت سے زیادہ ڈھیل دی ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آئی جی اسلام آباد کو ہٹائے جانے کی کیا یہی ایک وجہ ہے؛ اس حوالے سے ابھی تحقیقات ہونا باقی ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان کے تبادلے کی سمری تین ہفتے قبل وزیراعظم پاکستان کو بھجوا دی گئی تھی۔
بعدازاں اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا۔
اٹارنی جنرل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ یعنی یہ ایک اور بزدار کیس ہے جہاں اختیارات سے تجاوز کیا گیا۔ اور میں سمجھتا ہوں بہت اچھا ہوا۔ اس کی بنیاد پرنیا پاکستان بنے گا۔ اور عمران خان کو اپنے دوست اور دشمن کے مابین سمجھ آئے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہی تو ہمارا بنیادی اختلاف ہے کہ جہاں کہیں اختیارات سے تجاوز کیا جاتا ہے۔ قوم و عدالت اسے بڑا جرم نہ سمجھ کر معاف کر دیتی ہے۔ حالانکہ مہذب دنیا میں ایسا کرنے پر سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ آگے، ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔
اگر عدالت نے بزدار کیس میں "گجر" کو پکڑا ہوتا تو آج اس "سواتی" کی جرات نہ ہوتی کہ وزیر اعظم کے ذریعہ غیرقانونی کام کروائے۔ نئے پاکستان کی راہ میں رکاوٹ ادارے نہیں یہی پرانے پاکستانی ہیں۔ جنہیں خان صاحب نے ضرورت سے زیادہ ڈھیل دی ہوئی ہے۔
بے ضابطگی اور جرم میں فرق ہے۔ نادانستہ طور پر بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ عدالتوں کو بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ عدالتیں عام طور پر اس بات کا خیال رکھتی ہیں الا یہ کہ کوئی بے ضابطگی کو بھی تسلیم نہ کرے اور اپنی غلطی پر اڑ جائے۔
اٹارنی جنرل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ یعنی یہ ایک اور بزدار کیس ہے جہاں اختیارات سے تجاوز کیا گیا۔ اور میں سمجھتا ہوں بہت اچھا ہوا۔ اس کی بنیاد پرنیا پاکستان بنے گا۔ اور عمران خان کو اپنے دوست اور دشمن کے مابین سمجھ آئے گی۔
نیا پاکستان کیا اور پرانا پاکستان کیا؟ ترقی اور تنزلی عام طور پر ساتھ ساتھ ہی چلتی ہے۔ کیا پرانے پاکستان میں سب کچھ برا تھا؟
 

جاسم محمد

محفلین
۔ کیا پرانے پاکستان میں سب کچھ برا تھا؟
پرانے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حکومتی نمائندوں کا اپنے اختیارات سے تجاوز تھا۔ جن کے خلاف خان صاحب نے ہمیشہ جدوجہد کی۔ اداروں اور پولیس کو غیرسیاسی بنانے کے دعوے کئے ۔ اوراب حکومت میں آکر وہی حرکتیں شروع کر دی ہیں۔
عین ممکن ہے وزیر اعظم کو پوری بات بتائے بغیر یہ حکم جاری کروایا گیا ہو۔ جو بھی ہے۔ یہ اختیارات سے تجاوزات کا کیس ہے۔ جس کی سزا شہباز شریف، زرداری اور نواز شریف بھگت رہے ہیں۔ خان صاحب کی پکڑ ابھی سےہو گئی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
پرانے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حکومتی نمائندوں کا اپنے اختیارات سے تجاوز تھا۔ جن کے خلاف خان صاحب نے ہمیشہ جدوجہد کی۔ اداروں اور پولیس کو غیرسیاسی بنانے کے دعوے کئے ۔ اوراب حکومت میں آکر وہی حرکتیں شروع کر دی ہیں۔
عین ممکن ہے وزیر اعظم کو پوری بات بتائے بغیر یہ حکم جاری کروایا گیا ہو۔ جو بھی ہے۔ یہ اختیارات سے تجاوزات کا کیس ہے۔ جس کی سزا شہباز شریف، زرداری اور نواز شریف بھگت رہے ہیں۔ خان صاحب کی پکڑ ابھی سےہو گئی ہے۔
ابھی اس معاملے کی تحقیقات ہونا باقی ہیں۔ اور یاد رکھیے، پرانے پاکستان میں سب کچھ برا نہیں تھا۔ اس لیے 'نیا پاکستان' کے نعرے لگا کر قوم کو گمراہ نہ کیا جائے۔ حکومت کی سمت درست ہے تاہم 'نیا پاکستان' کے نعرے لگائے جائیں تو قوم معجزات کی توقع کرنے لگ جاتی ہے۔ تبدیلی اپنی فطری رفتار سے آئے تو مناسب رہتی ہے۔ ایک دو دن میں کایا پلٹ کیسے ہو؟
 

محمداحمد

لائبریرین
ابھی اس معاملے کی تحقیقات ہونا باقی ہیں۔ اور یاد رکھیے، پرانے پاکستان میں سب کچھ برا نہیں تھا۔ اس لیے 'نیا پاکستان' کے نعرے لگا کر قوم کو گمراہ نہ کیا جائے۔ حکومت کی سمت درست ہے تاہم 'نیا پاکستان' کے نعرے لگائے جائیں تو قوم معجزات کی توقع کرنے لگ جاتی ہے۔ تبدیلی اپنی فطری رفتار سے آئے تو مناسب رہتی ہے۔ ایک دو دن میں کایا پلٹ کیسے ہو؟

ماشاءاللہ!

آج کل آپ کو فرصت ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
۔ تبدیلی اپنی فطری رفتار سے آئے تو مناسب رہتی ہے۔ ایک دو دن میں کایا پلٹ کیسے ہو؟
ٹھیک ہے جو کام وزیر اعظم کے اختیارات سے باہر ہیں جیسے بیرونی قرضوں کا بوجھ اس پر چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ البتہ داخلی معاملات، اداروں میں اچھاڑ پچھاڑ، اور دیگر پالیسیاں بنانے میں حکومت آزاد و خودمختار ہے۔ یہاں رعایت نہیں دی جاسکتی۔ بزدار کیس کو پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر دیا گیا۔ یہ بار بار ہوتا رہے گا جب تک ان عناصر کی پکڑ نہیں ہوتی۔ جو اقتدار میں آکر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومتی وزرا جو آج تک مقدس گائے بنے رہے۔ اب ان کی باری
تحریک انصاف کے فرعون
وفاقی وزیر کے بیٹے کی درخواست پر 2 خواتین سمیت ایک خاندان کے 5 افراد گرفتار
192206_9589378_updates.jpg

ملزمان نے اپنے مویشی ہمارے باغات میں چھوڑدیئے اور منع کرنے پر ملزمان نے ملازمین پر کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا، اعظم سواتی کے درخواست میں مؤقف — فوٹو:فائل

اسلام آباد: آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے بعد وفاقی وزیر اعظم سواتی کے بیٹے کی درخواست پر پولیس نے 15 سالہ بچی، چوتھی جماعت کے طالبعلم 12 سالہ صلاح الدین اور عمر رسیدہ خاتون سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا۔

آئی جی اسلام آباد جان محمد کی تبدیلی کے بعد وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے بیٹے کی درخواست پر مقدمہ تھانہ شہزاد ٹاؤن میں درج کیا گیا۔

اعظم سواتی کے بیٹے نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ملزمان نے اپنے مویشی ہمارے باغات میں چھوڑ دیئے اور منع کرنے پر ملزمان نے ملازمین پر کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے گن مین سےکلاشنکوف کے میگزین چھینے اور زدوکوب کیا، پولیس نے ملزمان کیخلاف اعظم سواتی کے فارم پر ان کے ملازمین پر حملے کی ایف آئی آر درج کی۔

پولیس ذرائع کے مطابق تھانہ شہزاد ٹاؤن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے خیمہ بستی سے چوتھی جماعت کے طالبعلم 12 سالہ صلاح الدین، اس کی والدہ اور بہن سمیت 5 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نوعمر صلاح الدین کو اس کی والدہ اور بہن کے ہمراہ جیل بھیجوا دیا گیا جب کہ پولیس نے 12 سالہ بچے کے والد نیاز اور بڑے بھائی احسان اللہ کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔

ذرائع کے مطابق سابق آئی جی اسلام آباد جان محمد نے مبینہ طور پر اسی کیس میں کارروائی سے گریز کیا تھا جس کے باعث گزشتہ روز ان کا تبادلہ کردیا گیا۔

آئی جی اسلام آباد پولیس کو فون کرتا رہا لیکن فون نہیں سنا، اعظم سواتی

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ تھانہ شہزاد ٹاؤن پولیس نے جن افراد کو گرفتار کیا وہ ہمارے ملزم ہیں اور گرفتار ملزمان نے ہمارے ملازمین پر حملہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کی گائے نے ہمارے فارم ہاؤس میں پھل دار درختوں کو نقصان پہنچایا، ہم نے کسی بچے کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا اور پولیس نے بھی بتایا کہ انہوں نے کسی بچے کو گرفتار نہیں کیا۔

اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد پولیس کوبار بار فون کرتا رہا لیکن انہوں نے فون نہیں سنا، میرے کیس میں سیکریٹری داخلہ بھی آئی جی کو فون کرتے رہے مگر انہوں نے فون نہ سنا۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیر مملکت داخلہ شہر یار آفریدی نے ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھا، میرے ملازمین پر حملہ ہوا تو قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کوئی اثرورسوخ استعمال نہیں کیا۔


دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے وفاقی وزیر کا فون سننے میں تاخیر پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر کا فون سُننے میں تاخیر پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کا تبادلہ حیران کن ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئی جی اسلام آباد نے وفاقی وزیر کے غیر قانونی حکم کی تعمیل نہیں کی کیوں کہ وفاقی وزیر پولیس کو اپنے ذاتی جھگڑے میں استعمال کرنا چاہتے تھے جس کے بعد آئی جی اسلام آباد کو سزا دے کر بیورو کریسی کو پیغام دیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرے کیس میں سیکریٹری داخلہ بھی آئی جی کو فون کرتے رہے مگر انہوں نے فون نہ سنا۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر مملکت داخلہ شہر یار آفریدی نے ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھا، میرے ملازمین پر حملہ ہوا تو قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کوئی اثرورسوخ استعمال نہیں کیا۔
سارے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بعد معصوم بن رہے ہیں کہ اور کوئی اثر رسوخ استعمال نہیں کیا۔ یہ ہے پرانا پاکستان جسے بدلنا ہے۔ گجروں، آفریدیوں اور سواتیوں کو حکومت سے باہر نکالنا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اعظم سواتی مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا۔ پاکستان کا امیر ترین پارلیمنٹیرین اعظم سواتی سیاست میں فضل الرحمان کے توسط سے داخل ہوا جب وہ فضل الرحمان کے بھائی کو پندرہ کروڑ روپے دے کر ایم ایم اے کے ٹکٹ سے سینیٹر منتخب ہوا اور زرداری دور میں فضلے کی سفارش پر وزیر بھی بن گیا۔ بعد میں اختلافات کی وجہ سے وزارت سے اسعفی دیا اور پھر تحریک انصاف میں شامل ہوگیا۔

آج کی خبر ہے کہ اسلام آباد میں اس کے فارم ہاؤس میں کسی غریب فیملی کے مویشی داخل ہوگئے جس پر سواتی کے بیٹے کا ان سے جھگڑا ہوگیا۔ سواتی نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے شکایت کی لیکن اس نے کاروائی نہ کی۔ چنانچہ سواتی نے عمران خان سے شکایت کرکے آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کروا دیا۔

جب میڈیا میں خبر آئی تو اعظم سواتی نے کہا کہ آئی جی پولیس نے بائیس گھنٹے تک اس کی کال اٹینڈ نہ کی جو کہ ناقابل برداشت ہے۔ دوسری طرف حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آئی جی کے تبادلے کی سمری تین ہفتے قبل تیار ہوچکی تھی لیکن وزیراعظم کے غیرملکی دورے اور دوسری مصروفیات کی وجہ سے اس پر دستخط نہ ہوسکے۔

تین ہفتے پہلے تبادلے کی خبر میں سچائی نہیں لگتی کیونکہ اس دوران عمران خان نے بہت سی دوسری سمریوں پر بھی دستخط کئے تھے، تو پھر اس سمری پر دستخط کرنے میں کتنا وقت صرف ہونا تھا؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب آئی جی جیسی اہم ترین پوسٹ کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو اس کی جگہ نئے افسر کی تعیناتی بھی کی جاتی ہے۔ ملک کے دارالخلافہ کے آئی جی کے تبادلے کی سمری اگر تین ہفتے پرانی ہے تو پھر نئے آئی جی کی سمری ابھی تک کیوں نہیں بن سکی؟

یا تو وزارت داخلہ جھوٹ بول رہی ہے، یا پھر وہ نااہل ہے - عمران خان کے پاس چونکہ اس وزارت کا قلمدان ہے، اسلئے ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے ۔ ۔ ۔

اب آجائیں اعظم سواتی کے مؤقف پر۔ اگر بائیس گھنٹے تک فون ریسیو نہ کرنے کی پاداش میں آئی جی کا تبادلہ کرنا ٹھیک ہے تو ہمیں یہ پالیسی منظور ہے۔ کل کلاں کو اگر کوئی عام آدمی کسی وزیر سے رابطہ کرتا ہے اور بائیس گھنٹے کے اندر اندر اسے جواب نہیں ملتا تو اس وزیر کی برطرفی بھی اسی طرح ہونی چاہیئے جس طرح آئی جی اسلام آباد کی ہوئی۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے۔

خبر کے مطابق آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے بعد پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے اعظم سواتی کے بیٹے کی شکایت پر ایک بوڑھی عورت اور اس کی کمسن بچی کو حراست میں لے لیا ہے۔ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ اس بچی کے ساتھ ساتھ پوری قوم بھی دوبارہ حراست میں لے لی گئی ۔ ۔ ۔
وہ حراست کہ جس کی ضمانت ابھی حال ہی میں 25 جولائی کے الیکشن میں ہوئی تھی!!! بقلم خود باباکوڈا
 

فرقان احمد

محفلین
بابا کوڈا کون ہے؟ عجیب سا نام ہے اور آپ نے آج تک ان کے نام سے جو کچھ شیئر کیا ہے، وہ غیر منطقی ہی معلوم ہوا۔ آئی جی کا تبادلہ غلط ہوا ہو گا تاہم عدالت کو فیصلہ کرنے دیجیے۔ خود سے فیصلہ صادر کرنا اور ہر ایک کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی تمنا مناسب نہیں۔ ممکن ہے کہ خان صاحب کو اس حوالے سے سیکرٹری داخلہ نے درست طور پر رہنمائی فراہم نہ کی ہو۔
 
Top