نصیر الدین نصیر ‎ ہے آج پھر دلِ دیوانہ زخمہ یابِ جنوں

الف نظامی

لائبریرین
ہے آج پھر دلِ دیوانہ زخمہ یابِ جنوں
کسی نے چھیڑ دیا پھر کہیں ربابِ جنوں

جنوں کے شہر میں ہے ہم سے آب و تابِ جنوں
ہمیں نصیب ہے سرمایہِ شبابِ جنوں

ہماری کشتِ تمنا نہ کیوں پھلے پھولے
تمام عُمر برستا رہا سحابِ جنوں

یہ وہ سوال ہے جو حل طلب رہے گا سدا
خرد کے پاس نہیں ہے کوئی جوابِ جنوں

ابھی نہ چھیڑ مجھے شحنہِ خرد کچھ دیر
پلا رہی ہے کسی کی نظر شرابِ جنوں

جنوں کی راہ میں چلنا کوئی مذاق نہ تھا
خرد چلی بھی تو دو گام ، ہمرکابِ جنوں

یہ تحفہ درِ جاناں ہے تُو بھی دیکھ فلک
نشانِ سجدہ جبیں پر ہے آفتابِ جنوں

کتابِ شوق مرتب ہوئی سلیقے سے
ہمارے نام سے ہے ابتدائے بابِ جنوں

نمازِ عشق ادا کی اس اہتمام کے ساتھ
بہ فیضِ اشک کیا ہے وضو بہ آبِ جنوں

خرد اُٹھا نہ سکی پھر کوئی بھی ہنگامہ
چڑھی وہ ٹوٹ کے بوئے شرابِ نابِ جنوں

تمام عُمر کٹی نت نئے تماشوں میں
نصیر جلوہ بہ جلوہ رہا خرابِ جنوں
(سید نصیر الدین نصیر)
 
آخری تدوین:
Top