ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! اس خوبصورت فورم پر میرے گزشتہ دس سالوں کے سفر کے دوران میری بنیادی پہچان ایک شاعر کے طور پر رہی ہے۔ کتنی ہی غزلیں اور نظمیں یہاں آپ کی خدمت میں پیش کیں اور کتنی ہی اور ہیں کہ جو ابھی تک پوسٹ نہیں کر سکا ۔ میں اب شاعری ترک کرچکا ہوں لیکن پچھلے سال جون میں لکھی ہوئی یہ غزل الوداع کے اس وقت بر محل محسوس ہوتی ہے ۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!
***
اس دل سے بڑا دشمنِ جاں کوئی نہیں ہے
خواہش نہ ہو اِس میں تو زیاں کوئی نہیں ہے
بے برگ ہوئی شاخِ تمنا مری کب سے
صد شکر کہ اب خوفِ خزاں کوئی نہیں ہے
رہتے ہیں کئی لوگ ہر اک گوشۂ دل میں
بس تم جہاں رہتے ہو وہاں کوئی نہیں ہے
اصرار ہے دل کو بھی خریداری پر اُس کی
بازار میں جس شے کی دکاں کوئی نہیں ہے
بے گھر مجھے رکھا ہے سدا میری انا نے
دستک بھی وہاں دی کہ جہاں کوئی نہیں ہے
ہر شخص کا ممکن ہے جہاں میں متبادل
اس وہم سے بڑھ کر بھی گماں کوئی نہیں ہے
٭٭٭
ظہیر ؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جون ۲۰۲۴ ء
اس دل سے بڑا دشمنِ جاں کوئی نہیں ہے
خواہش نہ ہو اِس میں تو زیاں کوئی نہیں ہے
بے برگ ہوئی شاخِ تمنا مری کب سے
صد شکر کہ اب خوفِ خزاں کوئی نہیں ہے
رہتے ہیں کئی لوگ ہر اک گوشۂ دل میں
بس تم جہاں رہتے ہو وہاں کوئی نہیں ہے
اصرار ہے دل کو بھی خریداری پر اُس کی
بازار میں جس شے کی دکاں کوئی نہیں ہے
بے گھر مجھے رکھا ہے سدا میری انا نے
دستک بھی وہاں دی کہ جہاں کوئی نہیں ہے
ہر شخص کا ممکن ہے جہاں میں متبادل
اس وہم سے بڑھ کر بھی گماں کوئی نہیں ہے
٭٭٭
ظہیر ؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جون ۲۰۲۴ ء
آخری تدوین: