یہ ہے اللہ کی تلواروں میں سے ایک ۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
(بشکریہ اردو ڈائجسٹ)
Hazrat-Khalid-bin-Waleed2-300x336.png

ان کا معاملہ بھی عجیب ہے! اُحد کے روز مسلمانوں کو گھائو لگایا اور باقی زندگی اَعدائے اسلام کو ناکوں چنے چبوائے۔
آئیے ان کی داستانِ حیات ابتدا سے سنیں!
مگر کون سی ابتدا؟… وہ تو خود اس روز کے علاوہ کسی روز کو اپنی زندگی کا آغاز نہیں سمجھتے جس روز انھوں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کرتے ہوئے آپؐ کے دست مبارک سے مصافحہ کیا تھا۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ اس ساری عمر اور زندگی کو خود سے دور کر دیتے جو اس روز سے قبل مہینوں اور برسوں کی صورت میں گزر چکی تھی۔

ہم بھی ان کی کہانی وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وہ شروع کرنا پسند کرتے ہیں یعنی وہ حسین لمحہ جس میں ان کا دل اللہ سے ڈر گیا اور ان کی روح نے رب الرحمن کے دائیں ہاتھ کا لمس محسوس کیا۔ (رحمن کے تو دونوں ہاتھ دائیں ہیں) تو وہ روح اُس کے دین، اُس کے رسول اور راہِ حق میں تمنائے شہادت کے شوق سے کھل اٹھی۔ ایسی شہادت جو ایام ماضی کا وہ بوجھ اتار پھینکے جو باطل کی حمایت و نصرت کی صورت میں ان کے کندھوں پر پڑا ہوا تھا۔

ایک روز وہ تنہائی میں بیٹھ گئے اور اپنے سنجیدہ احساسات اور صحیح عقل و شعور کو اس دینِ جدید پر مرکوز کر دیا جس کے پرچم روز بروز بلند بھی ہو رہے تھے اور ان میں اضافہ بھی ہو رہا تھا۔ ان کے دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ اللہ عالم الغیب ان کے لیے ہدایت کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے۔

یعنی ان کے بیدار دل میں یقین کے احساسات جاگ اٹھیں۔ وہ خود سے ہم کلام ہوئے: ’’اللہ کی قسم راستہ درست ہے اور آدمی رسولﷺ ہے۔ لہٰذا کہاں تک اور کب تک (میں اس سے دور رہوں گا)؟ اللہ کی قسم! میں جاتا ہوں اور اسلام قبول کر لیتا ہوں!‘‘ قارئین کرام! ہم انھی کے الفاظ کی طرف کان لگاتے ہیں۔ وہ رسول اللہﷺ کے پاس جانے اور قافلۂ مومنین میں اپنا نام درج کرانے کے لیے مکہ سے مدینہ کی طرف اپنے سفرِمبارک کی روداد بیان کرتے ہیں:

’’میں نے چاہا کہ کوئی ایسا آدمی ملے جس کو ساتھ لے چلوں! میں عثمانؓ بن طلحہ کو ملا اور اس سے اپنے ارادے کا ذکر کیا تو اس نے فوراً بات مان لی۔ ہم دونوں بوقتِ سحر نکل پڑے۔ جب ہم سہل کے مقام پر پہنچے تو وہاں ہمیں عمروؓبن العاص ملے۔ انھوں نے کہا: آنے والوں کو خوش آمدید۔

ہم نے کہا: ’’آپ کو بھی خوش آمدید۔‘‘

انھوں نے پوچھا: ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘

ہم نے انھیں بتایا تو انھوں نے بھی ہمیں بتا دیا کہ وہ بھی نبیﷺ کی طرف جا رہے ہیں تاکہ اسلام قبول کریں۔
پھر وہ بھی ہمارے ساتھ ہو لیے۔ یہاں تک کہ ہم ۸؍ہجری یکم صفر کو مدینہ پہنچ گئے۔ میں جب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ کو نبی کہہ کر سلام کیا۔ آپﷺ نے بھی خندہ روئی سے سلام کا جواب دیا۔ پھر میں نے کلمۂ شہادت پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھارے اندر ایسی عقل دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمھیں خیر کے سوا کسی اور چیز کے حوالے نہیں کرے گی۔‘‘
میں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی اور عرض کیا: راہِ حق میں رکاوٹ ڈالنے کی خاطر مجھ سے سرزد ہونے والے ہر عمل کی میرے لیے استغفار کیجیے!
آپؐ نے فرمایا: ان الاسلام یجب ما کان قبلۃ (اسلام ان تمام (گناہوں) کو مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں)۔

میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ پھر بھی آپﷺ میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔
پھر آپ یوں گویا ہوئے:

اللھم غفر لخالد ابن الولید کل ما اوضع فیہ من صد عن سبیلک ’’اے اللہ! خالد بن ولیدؓ کے ان تمام گناہوں کو معاف فرما دے جو اس نے تیری راہ روکنے کے لیے کیے ہیں۔‘‘
اس کے بعد عمروؓ بن العاص اور عثمانؓ بن طلحہ بھی مسلمان ہو گئے اور رسول اللہﷺ کی بیعت کر لی۔‘‘

آئیے ان ’’حضرت خالدؓ‘ کی معیت میں چند لمحات گزاریں جو اپنی قوت بازو کے بل بوتے پر اسلام لائے تھے۔

جنابِ خالدؓ جب مسلمان ہو جاتے ہیں تو ان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہو جاتا ہے۔ قارئین کرام! آپ معرکہ مؤتہ کے مردِمیدان تین شہدا جناب زید بن حارثہؓ، جناب جعفرؓ بن ابی طالب اور جناب عبداللہؓ بن رواحہؓ ہیں۔مؤتہ وہ غزوہ ہے جس کے لیے روم نے دو لاکھ فوج جمع کی تھی اور جس کے مقابلے میں مسلمانوں نے بے مثال دادِشجاعت دی تھی۔

آپ کو وہ غم انگیز الفاظ بھی یاد ہوں گے جو رسول اللہﷺ نے تینوں قائدینِ معرکہ کے شہادت کی خبر دیتے ہوئے فرمائے تھے کہ: اخذ الرایۃ ’’زید بن حارثۃ‘‘ فقاتل بھا حتیٰ قتل شھیدا…’’ثم اخذھا ’’جعفر‘‘ فقاتل بھا، حتیٰ قتل شھیدا… ثم اخذھا ’’عبداللہ بن رواحۃ‘‘ فقاتل بھا، حتیٰ قتل شھیدا ’’زید بن حارثہ نے پرچم پکڑا اور وہ لڑتے رہے حتیٰ کہ وہ قتل ہو کر شہید ہوگئے۔ پھر پرچم جعفرؓ نے پکڑا اور وہ بھی لڑتے رہے حتیٰ کہ قتل ہو کر شہید ہو گئے۔ پھر پرچم عبداللہ بن رواحہؓ نے تھاما اور لڑتے رہے حتیٰ کہ قتل ہو کر شہادت پاگئے۔‘‘

اس حدیثِ رسولﷺ کا کچھ حصہ باقی ہے ۔آپ نے مزید فرمایا:
ثم اخذ الرایۃ سیف من سیوف اللہ ففتح اللہ علیٰ یدیہ ’’پھر پرچم اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے تھاما اور اللہ نے اس کے ہاتھوں فتح عطا فرما دی۔‘‘

یہ سیف من سیوف اللہ کون تھا؟
یہ حضرت خالدؓ بن ولیدؓ تھے جو ایک عام سپاہی کی حیثیت سے تین کمانڈروں حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ کی قیادت میں غزدۂ مؤتہ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ یہ تینوں کمانڈر اسی ترتیب سے اس خوفناک جنگ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔

آخری کمانڈر کے شہید ہو کر زمین پر گرنے کے بعد حضرت ثابت بن اقرمؓ جلدی سے جھنڈے کی طرف بڑھے اور اسے داہنے ہاتھ میں تھام کر لشکرِاسلام کے وسط میں بلند کردیا تاکہ مسلمانوں کی صفوں میں کوئی بد دلی نہ پیدا ہونے پائے۔

حضرت ثابتؓ نے جھنڈے کو تھامتے ہی یہ کہتے ہوئے فوراً اسے حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرف بڑھا دیا کہ: ’’اے ابو سلیمان! پرچم پکڑ لیجیے!‘‘
حضرت خالدؓ جھنڈے کو اٹھانا اپنا حق نہیں سمجھتے تھے کیونکہ آپ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ آپ اس وقت مسلمانوں کی قیادت کریں جب وہ انصار و مہاجرین ان کے درمیان ابھی موجود ہوں جنھوں نے اسلام لانے میں سبقت حاصل کی تھی۔

ادب، انکسار، علم اور اخلاقی خوبیاں! یہ انھی کے لائق تھیں اور وہ ان کے اہل تھے۔ اس وقت انھوں نے حضرت ثابت بن اقرمؓ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’نہیں… میں پرچم نہیں تھام سکتا۔ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آپ عمر میں بھی بڑے ہیں اور غزوۂ بدر میں بھی شریک ہو چکے ہیں۔‘‘

حضرت ثابتؓ نے اِن کو جواب دیا: اسے آپ پکڑیں، آپ مجھ سے زیادہ جنگ کے ماہر ہیں اور اللہ کی قسم! میں نے یہ آپ کو پکڑانے کے لیے پکڑا تھا۔

پھر حضرت ثابتؓ نے مسلمانوں میں بآواز بلند کہا: ’’کیا تمھیں خالدؓ کی امارت منظور ہے؟

لوگوں نے کہا: ہاں منظور ہے!

جناب خالدؓ اس وقت لشکر کی کمان سنبھالتے ہیں جب لڑائی اپنے انجام کے قریب پہنچ رہی ہے اور مسلمانوں کی شہادتیں بہت ہو چکی ہیں، ان کے بازو کٹ چکے ہیں، لشکر روم اپنی بے حساب کثرت کے بل بوتے پر تباہی بھی پھیلا رہا ہے اور مسلسل کامیابی بھی حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب کوئی جنگی چال یا دائو پیچ ایسا نہیں تھا جو معرکہ کے انجام کی سمت کو تبدیل کر سکے اور مغلوب کو غالب اور غالب کو مغلوب کر دے۔

جو واحد عمل کسی عبقری کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ مجھے آزمائے وہ یہ تھا کہ لشکرِ اسلام میں جانی نقصان کو مزید بڑھنے سے روکا جائے اور بقیہ قوت کو بچا کر یہاں سے نکالا جائے۔ یعنی محتاط پسپائی اختیار کی جائے جو بقیہ قوت کو ارضِ معرکہ میں تباہ ہو جانے سے بچا سکے۔ لیکن ان حالات میں اس طرح کی پسپائی کسی بھی جگہ ناممکن ہوتی ہے۔ مگر جب یہ بات صحیح ہے کہ یہ کام کسی بہادر دل کے لیے ذرا مشکل و ناممکن نہیں تو ہم کہیں گے کہ حضرت خالدؓ سے بڑا بہادر دل کون ہو سکتا ہے۔

سیف اللہ آگے بڑھتے ہیں۔ پورے میدانِ جنگ پر عقاب جیسی نگاہ ڈالتے ہیں اور روشنی جیسی تیزی سے فوراً منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ جنگ جاری ہے اور اسی دوران لشکر کو کئی ٹولیوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ پھر ہر ٹولی کو اس کی مہم اور ذمہ داری سونپتے ہیں اور مشکل میں ڈال دینے والے اپنے فن اور گہری چالاکی کو استعمال میں لاتے ہیں۔ یہاں تک کہ لشکرِروم کی صفوں میں بہت بڑا شگاف ڈال دیتے ہیں جس کے درمیان سے مسلمان لشکر بسلامت گزر جاتا ہے۔

حضرت خالدؓ اسلام لائے تو اس دین کے لیے اپنی عظیم خدمات رسول اللہﷺ کی خدمت اَقدس میں پیش کر دیتے ہیں جس دین پر وہ پورے یقین کے ساتھ ایمان لائے تھے اور پوری ندگی اس کی نذر کر دی۔ رسول اللہﷺ کے رفیق اعلیٰ سے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں تو اِرتداد کی غدّارانہ و مکارانہ آندھیاں چل پڑتی ہیں۔

ان طوفانوں نے کانوں کو بہرا کر ڈالنے والی خوفناک چنگھاڑ اور مسلسل تحریک کے ذریعے دین اسلام کا گھیرائو کرنے کی ٹھانی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس اولین بغاوت کی سرکوبی کے لیے مردِعصر و مردِ دہر حضرت خالد بن ولیدؓ پر نظر ڈالتے ہیں! یہ بات صحیح ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اِرتداد کے خلاف معرکے کا آغاز اس لشکرِاسلام کے ذریعے کیا تھا جس کی قیادت خود فرمائی تھی لیکن یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ انھوں نے فیصلہ کن دن کے لیے حضرت خالدبن ولیدؓ کو سنبھال رکھا تھا اور پھر حضرت خالد بن ولیدؓ ہی اِرتداد کے خلاف ان تمام معرکوں میں بے مثل و عظیم مردِمیدان رہے۔

جب مرتدین کے لشکروں نے اپنی بڑی بڑی سازشوں کو عملی رنگ دینے کی تیاری شروع کر دی تو خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ نے بھی عزم صمیم کرلیا کہ آپؓ خود لشکر اسلام کی قیادت کریں گے۔ بڑے بڑے صحابہ جو کسی قدر مایوسی میں آگئے تھے وہ خلیفہ کو اس عزم سے روک رہے تھے، لیکن خلیفہ کا عزم بتدریج پختہ ہوتا گیا۔

شاید اس طرح وہ اس مسئلہ کو جس میں کودنے کے لیے لوگوں کو دعوت دے رہے تھے، ایسی اہمیت دینا چاہتے تھے جو اس خوفناک معرکے میں بنفس نفیس شرکت کے بغیر نہیں دی جا سکتی تھی جو معرکہ ابھی ایمان و اسلام اور ارتداد و ضلال کی قوتوں کے مابین برپا ہونے والا تھا۔

باوجود اس کے کہ یہ تمرد عارضی تھا تاہم مرتدین کی یہ حرکات بہت بڑا خطرہ تھیں۔ اس مہم میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے اور پس و پیش کرنے والے عناصر کو اپنے بغضِ قلب کی آتش کو ٹھنڈا کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا۔ اس فتنے کی آگ اسد، غطفان، عبس، طیئ، ذیبان، بنی عامر، ہوازن، سلَیم اور بنی تمیم کے قبائل کے اندر بھی بھڑک اٹھی تھی۔

یہ سازشیں سر اٹھاتے ہی ہزاروں جنگجوئوں کے لشکر جرار میں تبدیل ہو گئیں۔ اس خوفناک بغاوت کو بحرین، عمان اور مہرہ کے لوگوں نے بھی قبول کر لیا تھا اور اسلام کو خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔ گویا زمین نے مسلمانوں کے چہار اطراف آگ بھڑکا دی تھی۔ لیکن ادھر دوسری طرف حضرت ابوبکرؓ تھے!! حضرت ابوبکرؓ نے مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کیا اور خود ان کی قیادت فرما کر اس مقام پر جا پہنچے جہاں بنی عبس، بنی مرہ اور ذبیاں ایک لشکر جرار کی صورت نکل آئے تھے۔ لڑائی چھڑ گئی اور شدت پکڑتی گئی… بالآخر عظیم فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔

کامیاب و فاتح لشکر ابھی مدینہ میں قدم ہی رکھ پایا تھا کہ خلیفہ نے اسے ایک اور معرکہ کے لیے آواز دے دی۔ چونکہ مرتدین کی خبریں اور ان کی جتھا بندی ہر لمحہ خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اس لیے اس دوسرے لشکر کی قیادت کے لیے بھی حضرت ابوبکرؓ خود نکلے مگر کبارصحابہؓ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور وہ سب اس بات پر متفق و جمع ہوگئے کہ خلیفہ کو مدینہ میں ہی رہنا چاہیے۔ حضرت علیؓ حضرت ابوبکرؓ کے راستے میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی اس سواری کی لگام پکڑ لیتے ہیں جس پر سوار ہو کر حضرت ابوبکرؓ لشکر کی قیادت کرنے جا رہے تھے۔

حضرت علی کہتے ہیں: ’’خلیفۂ رسولﷺ! کہاں جا رہے ہیں؟

میں آپ سے وہی بات کہوں گا جو رسول اللہﷺ نے اُحد کے روز فرمائی تھی کہ

لم سیفک یا ابا بکر ولا تفتجعنا بنفسک ’’ابوبکر! ذرا اپنی تلوار کو بند رکھو اور اپنے بارے میں ہمیں صدمہ نہ پہنچائو!‘‘ مسلمانوں کے اس مصمم اجتماعی موقف کے پیشِ نظر خلیفۂ وقت مدینہ میں رہنے پر راضی ہو گئے اور فوج کو گیارہ گروپوں میں تقسیم کرکے ہر گروپ کے لیے اس کا کام تعین کردیا۔ فوج کے ان یونٹوں میں سے سب سے بڑے یونٹ کے امیر حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔

خلیفہ نے جب کمانڈروں کو جھنڈے تفویض کیے تو حضرت خالدؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا کہ نعم عبداللہ و اخو العشیرۃ خالد بن ولید سیف من سیوف اللہ، سلہ اللہ علی الکفار و المنافقین ’’اللہ کا بہترین بندہ اور خاندان کا وفادار خالد بن ولید اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، اللہ اسے کفار و منافقین پر تان رکھے۔‘‘

حضرت خالدؓ اپنے لشکر کو ایک سے دوسرے معرکے میں منتقل کرتے ہوئے اپنی راہ پر گامزن ہیں اور فتح پر فتح پا رہے ہیں یہاں تک کہ فیصلہ کن معرکے کا روز آگیا۔ یہ یمامہ کا مقام ہے جہاں بنوحنیفہ اور ان کے ساتھ آ ملنے والے قبائل مرتدین کے لشکروں کو اکٹھا کر لائے ہیں جن کی قیادت (نبوت کا دعوے دار) مُسَیلمہ کذّاب کر رہا ہے۔
اس موقع پر کچھ مسلمان قوتوں نے بھی لشکرِ مُسَیلمہ کا ساتھ دینے کا تجربہ کیا مگر انھیں کچھ حاصل نہ ہوسکا۔

ادھر خلیفہ کا حکم فاتح سالار تک پہنچا کہ بنو حنیفہ کی طرف پیش قدمی کرو۔ حضرت خالدؓ لشکر کو لے کر چل پڑے۔ جب مسیلمہ کو علم ہوا کہ اس کی راہ میں آنے والے لشکر کی قیادت حضرت خالد بن ولیدؓ کر رہے ہیں تو اس نے اسے حقیقی اور خوفناک تصادم سمجھا۔ پھر اپنے لشکر کو ازسرنو ترتیب دینا شروع کردیا۔

حضرت خالدؓ نے لشکر کو یمامہ کی بلند جگہ پر اتار دیا اور لشکر کے کمانڈروں کو پرچم عنایت کیے اور دونوں لشکر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ خوفناک جنگ شروع ہو گئی۔ پھر اس میں شدت آتی گئی۔ مسلمان شہید ہو کر ایسے گر رہے تھے جیسے تند و تیز ہوا باغ کے پھولوں کو گراتی ہے!! جناب خالدؓ نے دشمن کا پلّہ بھاری ہوتا دیکھا تو فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر قریب ہی اونچی جگہ سے وسیع و عمیق میدان جنگ پر نظر ڈالی اور اپنے لشکر کے کمزور پہلوئوں کا جائزہ لیا۔

آپؓ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں ذمہ داری کا احساس اس تابڑتوڑ پیش قدمی کی بنا پر کمزور ہو گیا ہے جو مسیلمہ کی فوج نے ان پر کی ہے۔ لہٰذا آپؓ نے سوچا کہ تمام مسلمانوں کے دلوں میں ذمہ داری کے احساس کو پوری طرح اجاگر اور مضبوط کر دیا جائے۔

اس مقصد کے لیے آپؓ لشکر کے یونٹوں اور ٹولیوں کو بلا رہے تھے، میدان جنگ میں ہی اس کی تنظیمِ نوکر رہے تھے پھر اپنی فاتحانہ آواز میں کہا: الگ الگ ہو جائو۔ تاکہ ہم آج ہر قبیلے کی شجاعت کو دیکھ سکیں! سب قبیلے الگ الگ ہو گئے۔ مہاجر ایک جھنڈے تلے آگئے اور انصار دوسرے جھنڈے کے نیچے چلے گئے۔ اور ایک باپ کی اولاد ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئی اور دوسرے کی دوسرے جھنڈے تلے چلی گئی۔ اس طرح واضح ہوگیا کہ شکست کس جگہ سے در آ رہی تھی۔ پھر دل بہادری کی آتش سے جل اٹھے اور عزم و جذبے سے سرشار ہو گئے۔

حضرت خالد ؓلمحہ بہ لمحہ تکبیر و تہلیل کا نعرہ بلند کرتے یا گرجدار آواز میں کوئی حکم دیتے تو لشکر کی تلواریں ایسی موت ثابت ہوتیں جنھیں کوئی موڑ نہیں سکتا اور اپنے ہدف تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔ چند ہی ثانیوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسیلمہ کا لشکر دس دس کرکے پھر سیکڑوں اور پھر ہزاروں کی تعداد میں تلواروں کی نذر ہونے لگا۔ اس طرح ارتداد کا انتہائی خطرناک اور شدید معرکہ انجام کو پہنچا۔ مسیلمہ قتل ہوگیا، میدان جنگ اس کے لشکر کی نعشوں سے بھر گیا اور کذّاب مدّعیِ نبوت کا جھنڈا مٹی تلے دب گیا۔

خلیفہؓ نے مدینہ میں اللہ ربُّ العِزّت کے لیے نماز شکر ادا کی کہ اس نے مسلمانوں کو اس فتح سے نوازا اور انھی
 

شوکت پرویز

محفلین
اللہ اکبر !!

مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ رِجَالٌ۬ صَدَقُواْ مَا عَ۔ٰهَدُواْ ٱللَّهَ عَلَيۡهِ‌ۖ فَمِنۡهُم مَّن قَضَىٰ نَحۡبَهُ ۥ وَمِنۡہُم مَّن يَنتَظِرُ‌ۖ وَمَا بَدَّلُواْ تَبۡدِيلاً۬ (٢٣)
مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا (۲۳)
(سُوۡرَةُ الاٴحزَاب)
 
Top