یہ گجر کون ہے؟ چیف جسٹس

جاسم محمد

محفلین
عدالت کو وقفے کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عاصم نواز چوہان نے بتایا کہ آئی ایس آئی کے کرنل طارق فیصل اس وقت لاہور میں اجلاس میں ہیں، وہ ہدایات لے کر اجلاس چھوڑ کر آ سکتے ہیں۔ احسن گجر کے گھر پر پولیس گئی ہے وہ موجود نہیں، ان کا فون بھی بند ہے۔ خاور مانیکا نے کہا کہ انہوں نے بیٹی کو اسکول سے لے کر آنا ہے۔ ابراہیم مانیکا نلتر گلگت میں ہیں۔
پاکستانی اداروں اور محکموں میں سیاسی مداخلت کرکے ان کو تباہ کرنے والے کردار قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔ دیکھتے ہیں نیا پاکستان کیسے نہیں بنتا۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے انصافی پہلے دن سے تنگ ہیں۔ اس کیس کے بعد ان کی چھٹی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عثمان بزدار، راج نیتی کی خوبصورت چال
رؤف کلاسرا
Rauf-Klasra-image-630x315df.jpg


سیانے کہتے ہیں: جو گانٹھیں وقت پر ہاتھوں سے نہ کھولی جائیں‘ وہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ یہی کچھ اب ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس‘ جناب جسٹس میاں ثاقت نثار صاحب نے اب پاک پتن معاملے پر سووموٹو لے لیا اور جمعہ کے روز آئی جی پنجاب‘ انکوائری افسر‘ ڈی پی او اور آر پی او کو بھی بلا لیا ہے۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا جب کوئی حکمران وقت پر فیصلہ یا ایکشن لینے کی بجائے انتظار کرتا رہا کہ معاملہ خود بخود سدھر جائے گا اور ناقدین تھک کر چپ ہو جائیں گے۔

میں نے اسلام آباد میں بیس سالہ جرنلزم میں یہی کچھ دیکھا ہے۔ ہر حکمران نے یہ رویہ رکھا ہے کہ معاملہ ٹالتے رہو‘ کسی بات کو سنجیدہ نہ لو۔ یوں گورننس میں دھیرے دھیرے گیپ پیدا ہوتا رہتا ہے‘ لیکن وہ گیپ زیادہ دیر نہیں رہتا اور آخر ایک دن کوئی ادارہ بڑھ کر اس گیپ کو بھر کر سب اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور عوام اس کے نعرے مارنے لگ جاتے ہیں۔

بعد میں جب اس وزیر اعظم یا پارٹی کی حکومت بحرانوں میں گھرتی جاتی ہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی معاملہ عدالت میں پیش ہوتا ہے اور وہاں وزراء اور افسران پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں تو پھر ایک ہی بہانہ حکمرانوں کے پاس بچ جاتا ہے کہ ہماری حکومت کو نہیں چلنے دیا جا رہا‘ ادارے ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں۔

وہ اپنی ناکامیوں اور نااہلیوں کا ملبہ عدالت اور اداروں پر ڈال کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ بیماری کہاں سے شروع ہوئی؟

ججوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ حکومت اور حکمرانوں کی جگہ لینے کی کوشش کریں؟ وہ کیوں وقت اور انرجی ان کاموں پر ضائع کریں جو حکومت کے کرنے کے کام ہیں؟ تو پھر کیوں عدالتیں وہ کام کرنے لگ جاتی ہیں جو حکومتوں کے نزدیک اس قابل نہیں کہ ان کو اہمیت دی جائے؟ تو پھر عدالت کیوں سمجھتی ہے کہ یہ اہم ایشوز ہیں اور ان سے عوام متاثر ہو رہے ہیں؟

ایک دفعہ میری پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم سے بات ہوئی تو وہ عدالتوں کے سخت رویے کے شاکی تھے۔ میں نے کہا: عدالت کیا کرتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اختیارات استعمال کرتی ہے‘ ہمارے ذریعے وہ کام کراتی ہے جو ہم نے نہیں کیے ہوتے۔ میں ہنس پڑا اور کہا: وہ کام آپ خود کیوں نہیں کرتے‘ جو عدالتیں آپ سے کراتی ہیں؟ آپ عدالتوں کے حکم کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ جج جو کام کرتے ہیں‘ اس پر عوام انہیں داد دیتے ہیں‘ اس کا مطلب ہے وہ کام ہونا ضروری تھا۔

وہ کام آپ پہلے نہیں کرتے‘ لیکن جب جج حکم دیتے ہیں‘ تو آپ دوڑ پڑتے ہیں۔ جج صاحبان کے حکم پر وہی سرکاری مشینری اور بابوز کام کرتے ہیں جو پہلے کرنے کو تیار نہیں تھے۔

مسئلہ حکمرانوں کے ساتھ ہے۔ لوگ جج صاحبان کے پاس شکایات لے کر جائیں گے تو وہ کچھ تو حکم دیں گے۔ جج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں‘ وہ بھی روزمرہ باتوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ حکمران تو مزے کر رہے ہیں اور عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں تو پھر وہ ایکشن لیتے ہیں۔

آپ لوگوں کو تو چاہیے کہ آپ عدلیہ کے ذریعے بیوروکریسی اور گورننس بہتر کرتے اور عوام سے داد پاتے‘ آپ الٹا عدالتوں سے سینگ اڑا لیتے ہیں۔ آپ کام کی بجائے ججوں کی طرف توپوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ آپ چند افسران اس کام پر لگائیں کہ وہ کون سی باتیں ہیں جن پر چیف جسٹس ایکشن لیتے ہیں‘ آپ ایسے کاموں پر خود سے کارروائی کریں۔

روزانہ اخبارات اور چینلز کے ذریعے حکومتی نااہلی‘ گندگی‘ کرپشن اور دیگر معاملات پر خود ایکشن لیں اور افسران کو کہیں کہ وہ ایکشن لیں‘ معاملات درست کرنے کے بعد میڈیا کو پریس ریلیز جاری کریں۔

وزیراعظم اپنی حکومت کی کرپشن اور وزرا اور بیوروکریسی کی بدعنوانیوں کا تحفظ کرنے کی بجائے کارروائی کریں‘ تو دیکھیں عوام آپ کے کیسے دیوانے ہوتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار اس لیے عوام میں مقبول ہوئے کہ انہوں نے وہ کام حکومتوں سے کرائے جو حکومت اور حکمرانوں کو خود کرنے چاہئیں تھے‘ لیکن وہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔

جنرل مشرف کو بھی یہ شکایت تھی کہ ان کے بابوز کو عدالت میں بلایا جاتا ہے۔ زرداری اور گیلانی بھی ناراض ہوگئے کہ کیوں عدالتیں ہمارے کاموں میں مداخلت کرتی ہیں‘ نواز شریف اور شہباز شریف کو بھی عدالتوں سے شکایت رہی۔ بات وہی ہے کہ جب آپ خود وقت پر ایکشن نہیں لیں گے تو عدالتیں لیں گی۔

اب یہی پاک پتن کا واقعہ دیکھ لیں۔ عمران خان کے پاس بہت وقت تھا کہ اس معاملے پر خود ایکشن لیتے‘ کتنی دیر لگنی تھی۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب‘ آئی جی کلیم امام‘ آر پی او ساہیوال شارق کمال صدیقی اور ڈی پی او رضوان گوندل کو اسلام آباد بلا کر اجلاس میں سب کی سن کر اسی وقت قدم اٹھا لیتے۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کا کام تھا۔

عمران خان کو علم ہونا چاہیے تھا وہ جس طرح کی پوزیشن ماضی میں ‘سٹیٹس کو‘ اور وی آئی پی کلچر کے خلاف لیتے رہے ہیں اس کے تناظر میں یہ بڑا واقعہ تھا۔ دوسرے جو لوگ اس میں ملوث تھے وہ اب عمران خان کے قریبی رشتہ دار ہیں‘ لہٰذا اس بات کا ایشو بننا فطری عمل تھا۔ عمران خان چونکہ خود ایک ہائی مورال پوزیشن لے چکے ہیں‘ لہٰذا ان کے دوست دشمن سب ان سے توقع رکھتے ہیں۔

جب عمران خان اسلام آباد کے ایس پی محمد علی نیکوکارا اور آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ کو چوہدری نثار علی خان کے عتاب کا شکار ہونے کے باوجود اصول پر ڈٹے رہنے پر شاباش دیتے تھے تو آج لوگ ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ رضوان گوندل کے معاملے میں بھی سٹینڈ لیں گے۔

اگر نیکوکارا اور چیمہ کو نواز شریف حکومت کا برطرف کرنا ناجائز تھا تو رضوان گوندل کا بھی انکوائری سے پہلے تبادلہ کرنا غلط ہے۔ لیکن عمران خان پہلے امتحان میں ناکام رہے۔ وہ سوچتے رہے اور چیف جسٹس صاحب نے قدم اٹھا لیا۔

اب کل کو وزیراعظم کے حامی کہیں گے کہ عدالتیں ہمارے وزیراعظم کو نہیں چلنے دیتیں۔ یہ کوئی نہیں کہے گا کہ وزیراعظم سوچتا رہا فیصلہ نہ کرسکا۔ جناب چیف جسٹس نے فیصلہ کر لیا۔ عمران کو اس چپ کا نقصان ہوا‘ فائدہ نہیں۔

چلیں مان لیا خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ان کی شان میں گستاخی ہوگئی تھی۔ مان لیا رضوان گوندل کا قصور ہوگا‘ لیکن یہ کیسے ہوا کہ عمران خان کی بیگم صاحبہ کی سہیلی فرح‘ جس کے گھر نکاح ہوا تھا‘ اس کا خاوندا حسن اقبال جمیل وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں بیٹھ کر ڈی پی او اور آر پی او سے تفتیش کرے اور انہیں حکم دے کہ جا کر معاملہ سیٹل کرو ورنہ اس کے نتائج ہوں گے؟ یہ اختیار احسن اقبال جمیل کو کس نے دیا کہ وہ دو پولیس افسران کو دبائے؟

اب پتہ چلا کہ عثمان بزدار کا نام آسمان سے نہیں ٹپکا‘ اصل میں یہ نام بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح اور اس کے خاوند احسن جمیل کی طرف سے عمران خان تک پہنچایا گیا تھا۔


سب کچھ پہلے سے طے تھا‘ لیکن یوں ظاہر کیا گیا جیسے مناسب بندہ نہیں مل رہا تھا تو عثمان بزدار کا نام سامنے آ گیا۔ یہ ہیں راج نیتی کے وہ کھیل جو دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں۔ حکومتیں بدل سکتی ہیں‘ لیکن راج نیتی کے اصول نہیں بدلتے‘ سازشیں اور چالاکیاں نہیں بدلتیں۔ راج نیتی کا کھیل ایک ہی طریقے سے کھیلا جاتا ہے‘ چاہے کھلاڑی بدلتے رہیں۔

مجھے ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کا ڈائیلاگ یاد آرہا ہے کہ دنیا میں اتفاق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ سب کچھ پلانڈ (Planned) ہوتا ہے۔ گاڈ فارد نے اپنے دشمنوں کو کہا اگر میرے بیٹے پر آسمانی بجلی بھی گری تو بھی میں اسے اتفاق نہیں مانوں گا‘ سمجھوں گا تم لوگوں نے آسمانی بجلی سے مل کر سازش کی تھی۔

دو پولیس افسران سے وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں بشریٰ بی بی کی دوست فرح کے خاوند احسن اقبال جمیل کا تفتیش کرنا بھی اتفاق نہیں تھا‘ یہ سب پلانڈ (Planned) تھا۔

ہمارے سرائیکی علاقے کا سادہ لوح عثمان بزدار بھلا کیسے اپنے محسن‘ جس نے اسے وزیراعلیٰ‘ بنوا دیا‘ کو روک سکتا تھا کہ وہ اس کے اختیارات استعمال نہ کرے۔ ویسے داد دیں ان کو جو راج نیتی کا یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ ایسے ظاہر کر رہے تھے جیسے عثمان بزدار اتفاقاً وزیر اعلیٰ بن گیا۔

اب پتہ چلا یہ اتفاق نہیں تھا‘ سب کچھ پلانڈ (Planned) تھا۔ یہ راج نیتی کے کھیل کا حصہ تھا‘ جسے ہم سادہ لوح دیہاتی ایک آسمانی اتفاق سمجھ کر داد دیتے رہے!

بشکریہ دنیا
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا معاملہ: ’آئی جی پنجاب نے محکمے کا دفاع کیوں نہیں کیا؟‘
_103269764_000240628.jpg

پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بشریٰ بی بی اور خاور مانیکا کی بیٹی سے پولیس اہلکاروں کی مبینہ بدتمیزی اور پولیس حکام کے تبادلوں میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو اسلام آباد میں صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ پنجاب پولیس کے سربراہ کلیم امام وزیرِ اعلی پنجاب اور ان کے دوست کی جانب سے ڈی پی او پاکپتن سے معافی مانگنے کو کہنے اور ان کے تبادلے کے لیے اثروروسوخ استعمال کرنے کے واقعات کی تحقیقات کریں۔

خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کی بیٹی کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی مبینہ بدکلامی کے معاملے کی تحقیقات ایڈیشنل آئی جی کریں گے۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ خاور مانیکا کی صاحبزادی سے مبینہ بدکلامی اور معاملے میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں کی تحقیقات کے بعد ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔

سپریم کورٹ نے اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران یہ عندیہ بھی دیا کے وزیرِ اعلی پنجاب کو 62 ون ایف کے تحت شوکاز نوٹس بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔

’زبانی احکامات کیوں دیے‘
سماعت کے دوران عدالت نے آئی جی پنجاب کلیم امام سے استفسار کیا کہ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے احکامات زبانی کیوں دیے جس پر آئی جی پنجاب کا جواب تھا کہ وہ اسلام آباد میں تھے اس لیے زبانی احکامات دیے گئے۔

عدالت نے سوال کیا کہ ’ایسی کیا مجبوری آ گئی تھی کہ رات کے دو بجے زبانی احکامات جاری کرنا پڑے۔‘

عدالت نے یہ بھی عندیہ دیا کہ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈالنے والے وزیرِ اعلی کے دوست احسن جمیل گجر کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔

احسن گجر کی جانب سے ڈی پی او سے خاور مانیکا سے معافی مانگنے یا ان کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈالنے کی صورت میں اپنے محکمے کا دفاع نہ کرنے پر عدالت نے آئی جی پنجاب پولیس کی سرزنش بھی کی۔

عدالت نے آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ نے ادارے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔‘

وزیر اعلی ’صادق اور امین نہیں رہے‘
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ وہ وضاحت دیں کہ وزیرِ اعلی پنجاب نے اداروں پر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کیوں کی۔

عدالت نے عندیہ دیا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنا پر وزیرِ اعلی صادق اور امین نہیں رہے اور ان کے خلاف 62 ون ایف کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ ’کیا وزیر اعلی کے خلاف صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر کوئی عدالتی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔‘

’احسن جمیل نے کس حیثیت میں دباؤ ڈالا‘
عدالت نے وزیر اعلی کے دوست احسن جمیل گجر سے استفسار کیا کہ انھوں نے کس حیثیت میں ڈی پی او سے خاور مانیکا سے معافی مانگنے کو کہا؟

تاہم انھوں نے اس الزام سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ’آپ کی باڈی لینگویج آپ کے الفاظ کاساتھ نہیں دے رہی۔‘

سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کے کرنل طارق کو بھی طلب کیا اور کہا ’کیا آئی ایس آئی کا یہ کام ہے کہ وہ تبادلوں کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے؟‘ عدالت نے کہا کہ وہ آئندہ محتاط رہیں بصورتِ دیگر ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔


خاور مانیکا نے عدالت کو بتایا کہ انھیں ان کی بیٹی نے بتایا کہ بابا فرید کے مزار کی جانب جاتے ہوئے جب پولیس اہلکاروں نے انھیں روکا انھوں نے شراب پی رکھی تھی۔

عدالت نے خاور مانیکا سے کہا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ جو ہوا وہ اس کے لیے وہ معذرت خواہ ہے اور اس میں کوئی بھی پولیس اہکار ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
 

زیک

مسافر
سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کے کرنل طارق کو بھی طلب کیا اور کہا ’کیا آئی ایس آئی کا یہ کام ہے کہ وہ تبادلوں کے لیے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے؟‘ عدالت نے کہا کہ وہ آئندہ محتاط رہیں بصورتِ دیگر ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
آئی ایس آئی والا عدالت میں آیا؟
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
یہ کیس بھی پرانے پاکستان کی طرح معافی تلافی پر ختم :sad:
----------------------------
ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس، عثمان بزدار نے غیر مشروط معافی مانگ لی
457510_74456081.jpg

اسلام آباد: (دنیا نیوز) ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیرِاعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے جبکہ سابق آئی جی پنجاب کی رپورٹ اور معذرت کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سابق آئی جی پنجاب سید کلیم امام نے ایک آدمی کو بچانے کیلئے اپنے افسروں کو جھوٹا ثابت کر دیا، لکھ دیا کہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے تو وہ پولیس فورس میں نہیں رہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب نے اپنے سامنے پولیس افسران کو ذلیل کروایا، عدالت نے انکوائری رپورٹ مسترد کر کے نئی انکوائری کا حکم دے دیا۔
Usmanbuzdar4.jpg

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی رپورٹ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احسن جمیل گجر وزیرِاعلیٰ کے پاس سفارش لے کر گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سب اچھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس سربراہ کو اپنی اتھارٹی کی کوئی پرواہ نہیں، اگر لکھ دیا کہ رپورٹ بدنیتی پر مبنی ہے تو وہ پولیس فورس میں نہیں رہیں گے۔ احسن گجر کی جرات کیسے ہوئی کہ آئی جی سے تبادلے کا کہتا؟ وزیرِاعلی نے کس حیثیت سے پولیس افسران کو طلب کیا؟ اور اپنے سامنے انہیں ذلیل کروایا۔
IG.jpg

وزیرِاعلیٰ پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ وزیرِاعلیٰ بننے کے تین دن بعد معاملے کا علم ہوا، افسران کو خود ملنا چاہتا تھا، آر پی او کو اپنے ہاتھوں سے چائے پیش کی۔
IGP.jpg

چیف جسٹس نے کہا کہ افسران سے ملیں، مگر احسن جمیل گجر کو دفتر میں کیوں بٹھایا؟ عثمان بزدار کو آئین کا آرٹیکل 62 نکال کر دکھائیں، آئندہ معاملات ایسے نہیں چلنے چاہیں، قانون کی عملداری یقینی بنائیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم وزیرِاعلیٰ کےساتھ ایک وکیل تعینات کر رہے ہیں جو انھیں قانونی مشاورت دے گا۔
Usmanbuzdar3(1).jpg

سابق آئی جی پنجاب نے کہا کہ احسن جمیل گجر بچوں کا گارڈین ہے جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا ان بچوں کا باپ فوت ہو گیا ہے؟ آپ نے احسن جمیل کے پاس کوئی گارڈین سرٹیفیکٹ دیکھا؟ آئی جی صاحب آپ نے پولیس کو ذلیل کروا دیا۔ سیکرٹری سٹیلشمنٹ کو بلاتے ہیں کیا آپ کہیں سے بھی آئی جی لگنے کے قابل ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت 15 دن کے لیے ملتوی کر دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آج اس گجر نے بھی عدالت میں غیرمشروط معافی جمع کر وا دی۔ یا اللہ یہ ملک کدھر جا رہا ہے۔ کوئی تو انصاف کرو۔ قوم پر رحم کرو۔
 
Top