یہ منصف بھی تو قیدی ہیں۔۔۔ ہمیں ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عباس

محفلین
پاکستان کے انکاری جج

مظہر زیدی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
مشرقی پاکستان کے چیف جسٹس بی اے صدیقی نے جنرل ٹکا خان سے گورنر کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
سبھی جانتے ہیں یہ کہانی پرانی ہے۔
لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اسے بار بار دہرانا کتنا ضروری ہے۔

ساٹھ برسوں میں عدلیہ کے ان ایوانوں نے کیا کیا نہیں دیکھا۔ کبھی فوجی حکمرانوں کے ٹینکوں نے انہی عمارتوں کا گھیراؤ کیا تو کبھی سیاستدانوں کے کرائے کے غنڈوں نے یہاں دھاوا بولا۔

وہ جنہوں نے انکار کیا
انہی ایوانوں میں کہیں جسٹس انوار اور جسٹس نسیم نے’ہاں‘ کہہ کر فوجی ڈکٹیٹرز کو کئی زندگیاں بخش دیں تو کہیں جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس سعیدالزمان صدیقی ’نہ‘ کہہ کر مزاحمت کی بامثال روایات چھوڑ گئے۔

یہ سب شروع سے ہی ایسا تھا۔

1954: گورنر غلام محمد کی طرف سے چوہدری محمد علی کی حکومت اور قانون ساز اسمبلی کو برطرف کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی اس وقت کے دارلحکومت کراچی میں سندھ کورٹس میں سیکورٹی لگا دی گئی تھی تاکہ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین برطرفی کو چیلنج کرنے کے لئے عدالت کا رخ نہ کرسکیں۔ لیکن مولوی تمیز الدین نہ صرف رٹ پیٹیشن دائر کرنے میں کامیاب رہے بلکہ یہ کیس جیت بھی گئے۔ جس پر گورنر جنرل غلام محمد نے فیصلے کو فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا اور جسٹس منیر کے لینڈ مارک ججمینٹ جس میں پہلی مرتبہ نظریہ ضرورت کو استعمال کیا گیا اور اعلی عدالت نے فیصلہ گورنر جنرل کی حمایت میں تبدیل کردیا۔
بھٹو کی فورتھ امینڈمینٹ
ضیا مارشل لا کے بعد اسی فورتھ امینڈمینٹ کی وجہ سے خود بھٹو صاحب کی ضمانت منسوخ ہوئی جو انہوں نے خود متعارف کروائی تھا اور جس کا خود ان پر اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا الزام تھا۔
1958: چار سال بعد ملک میں جنرل ایوب کی طرف سے نافذ کئے گئے پہلے مارشل لا میں شروع سے ہی جسٹس ایم آر کیانی ، جنرل ایوب کو نہ بھائے اور بہت سے چھوٹے اور بڑے واقعات کے بعد انہیں سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی بجائے ہائی کورٹ سے ہی ریٹائر کردیا گیا۔

1971: ایک اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور ایک اور جج۔ اس مرتبہ ایسٹ پاکستان ہائی کورٹ کے جسٹس بی اے صدیقی نے جنرل یحی خان کی طرف سے ڈھاکہ بھیجے گئے جنرل ٹکا خان سے گورنر کا حلف لینے سے انکار کردیا۔

ستر کی ہی دہائی میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے متعارف کرائی گئی ‘فورتھ امینڈمینٹ’ جس کے تحت ضمانتوں کی منسوخی اور سیاسی مخالفین کے خلاف بند کمروں میں خصوصی عدالتوں کے ذریعے کارروائی کے الزامات سامنے آئے اور بلوچستان سازش کیس کی سماعت میں کئی افراد کے خلاف سماعت میں بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئیں۔ لیکن ضیا مارشل لا کے بعد پھر اسی فورتھ امینڈمینٹ کی وجہ سے خود بھٹو صاحب کی ضمانت منسوخ ہوئی۔

1981: وہی کہانی نئے چہرے۔ اس مرتبہ جنرل ضیا الحق کی طرف سے آئین برطرف کرنے اور نئے متعارف کرائے گئے پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کرنے والوں میں جسٹسز دراب پٹیل، ذکی الدین پال، عامر رضا، عبدالحفیظ میمن، خدا بخش مری اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم شامل تھے۔ ان میں زیادہ تر کو بعد میں جبری ریٹائیر کردیا گیا تھا۔

1990: ملک میں کہنے کو جمہوریت تھی جب صدر غلام اسحاق خان نے مرکز میں بے نظیر بھٹو اور سرحد سمیت دیگر صوبائی اسمبلیوں کو برطرف کردیا۔ لیکن ایک پیٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ نےصوبائی اسمبلی کو بحال کردیا جس پر مرکزی حکومت نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ اسمبلیاں بحال کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس قاضی جمیل بعد میں وہ واحد جج تھے جن کی تقرری کی صدر غلام اسحاق نے تصدیق نہیں کی اور ان کی چھٹی کرا دی گئی۔

1993: اسی صدر کے ہاتھوں ایک اور وزیراعظم اور اسمبلیوں کی برطرفی۔ غلام اسحاق خان کی طرف سے نواز حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ نے صدر کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ صرف ایک جج جسٹس سجاد علی شاہ نے مشہور اختلافی نوٹ لکھا۔ شائد اسی نوٹ کی وجہ سے بے نظیر حکومت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنا دئے جانے والے جسٹس سجاد علی شاہ کا وزیراعظم بے نظیر ہی کے ساتھ ججوں کی تقرری کے معاملے میں تنازعہ ہوا۔

1997: نواز شریف کے دوسرے دور میں وہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیراعظم کے درمیان محاذ آرائی اپنے عربج کو پہنچی اور پھر پاکستان کی تاریخ میں ایک اور ناقابل فہم واقعہ رونما ہوا جب حکمران جماعت کے رہنماؤں سمیت کئی افراد نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا اور بظاہر ایک صحافی کی طرف سے چیف جسٹس کو وقت پر مطلع کرنے سے وہ عمارت سے نکلنے میں کامیاب رہے۔

2000: پھر ایک فوجی حکمران اور اس کا پی سی او۔ لیکن پھر کچھ انکاری۔ جنرل مشرف کی طرف سے ججوں کو پی سی او پر حلف اٹھانے کے لئے کہے جانے پر چیف جسٹس جسٹس سعید الزمان صدیقی نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے استعفی دے دیا۔ ان کے علاوہ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس وجیہہ الدین احمد نے بھی ایسا ہی کیا۔

بہت وقت گزرا، بلوچستان سازش کیس کی سماعت کرنے والی ایک خصوصی عدالت میں پیشی پر حبیب جالب نے کہا تھا۔۔۔
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں۔۔۔ ہمیں انصاف کیا دیں گے
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

بہت خوب ڈاکٹرصاحب، ہمارے ملک میں توشروع سے ہی کھیل کھیلاجاتاہے کہ بس جوبھی آتاہے اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے بہت کچھ کرتاہے۔


والسلام
جاویداقبال
 
Top