یہ مئی کی پہلی، دن ہے بندۂ مزدور کا سید محمد جعفری

سیما علی

لائبریرین
یہ مئی کی پہلی، دن ہے بندۂ مزدور کا
مدتوں کے بعد دیکھا اس نے جلوہ حور کا

یہ جو رشتہ دار تھا ہم سب کا لیکن دور کا
مل کے مالک نے اسے رتبہ دیا منصور کا

جب لگایا حق کا نعرہ دار پر کھینچا گیا
نخل صنعت اس کے خوں کی دھار پر سینچا گیا

آج لیبر یونین میں شادمانی آئی ہے
آج مزدوروں کو یاد اپنی جوانی آئی ہے

مل کے مالک کو مگر یاد اپنی نانی آئی ہے
یا الٰہی کیا بلائے آسمانی آئی ہے

سنتے ہیں مزدور سے مالک کا مہرہ پٹ گیا
''ایک جا حرف وفا لکھا تھا وہ بھی مٹ گیا''

ہوتا ہے 'مے ڈے' کا اور 'مے پول' کا جب انتظام
ناچتے ہیں بانس کے گرد آ کے یوروپی عوام

لیکن اب ناچے گا وہ ظالم کہ جو ہے بد لگام
بانس کے بل پر دکھائے جیسے بندر اپنا کام

وہ جو پہلے تھا کبھی بندر مداری بن گیا
یعنی مزدور افسر سرمایہ کاری بن گیا

بعض ایسے تھے جو سرمائے کے ٹھیکیدار تھے
کہتے تھے مزدور کو خر اور خود خر کار تھے

چور بازاری کی جڑ تھے اور بڑے بٹ مار تھے
نفع خوری کے سوا ہر کام سے بیزار تھے

اب حلق میں ان کے جو کھایا اٹک کر جائے گا
غیر ملکوں میں نہ سرمایہ بھٹک کر جائے گا

پوچھو ان سرمایہ داروں سے کہ کب جاگو گے تم
یا یوں ہی پیتے رہو گے بے مروت مے کے خم

دیکھو ہر سال آئے گی ماہ مئی کی یہ یکم
سنتے ہیں سیدھی نہیں ہوتی کبھی کتے کی دم

تم مگر رکھتے ہو ایک انسان کی نوک اور پلک
''بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک''

قابل عزت ہیں اس دنیا کے محنت کش عوام
ملک کی دولت ہیں یہ، واجب ہے ان کا احترام

اس کے یہ ممبر ہیں لیبر یونین ہے جس کا نام
ان کی محنت کے دیے جائیں گے ان کو پورے دام

یہ نہیں ہوگا خفا ہو کر دہاڑی کاٹ دی
آدھے رستے لائے اور انجن سے گاڑی کاٹ دی
 
Top