یہ لوگ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ؟ (1)

ویسے تو پرائیویٹ چینلز کی کس منہ سے تعریف کریں۔ لیکن چند ایسے پرائیویٹ چینلز جو باقاعدہ انڈین کلچر کی ترویج کر رہے ہیں، انڈین ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں، نئی نسل کو سلمان خان، شاہ رخ خان، عامر خان بننے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو ایشوریہ ، کیترینہ اور کمرینہ کی نقالی کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ ان کی داد نہ دنیا تو زیادتی ہو گی۔ رسالے اور اخبار کھول کر دیکھ لیجئے مصنوعات ہماری ہیں اور شاہد کپور، شاہ رخ خان اور کئی خان بیچتے نظر آتے ہیں۔ اگر یہ نظر نوازیاں یہیں پر رک جاتیں تو ہم صبر کر لیتے، دل پر جبر کر لیتے مگر ایک پرائیویٹ چینل پر جو ابھی ابھی وارد ہوا ہے اور نور پھیلا رہا ہے اس پر کئی ہفتوں سے ایک لطیفہ چل رہا ہے .... کیا اس پاکستان میں کوئی اور بھی دیکھ اور سن رہا ہے یا صرف میں سن رہی ہوں۔ اچھا جو نہیں سن رہے ان کو میں سناتی ہوں .... ”ایک آواز .... اگر آج کے پاکستان میں قائداعظمؒ آئیں تو کیا کریں گے؟ دوسری آواز .... (مذاق کے انداز میں) آج کے پاکستان کو دیکھ کر قائداعظم سوری کہیں گے اور پاکستان انڈیا کو واپس کر دیں گے ....“ اب اہل دل اور اہل درد بتائیں یہ لطیفہ ہے، کثیفہ ہے، بدباطنی ہے، بداعمالی ہے یا ایجنڈا ہے۔ پاکستان کے اندر کسی بدبخت کو قائداعظمؒ کے بارے میں لطیفہ گھڑنے کی جرات کیونکر ہوئی۔ پیمرا کا کوڈ آف کنڈکٹ کہاں گیا۔ آپ نئی نسلوں کو کیا بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک مذاق تھا اور قائداعظمؒ نے ایک غلطی کی تھی (خاکم بدہن) اور قائداعظم اس غلطی کی تلافی کے طور پر انڈیا کو واپس دینا چاہتے ہیں؟ .... انتہائی شرمناک خیال ہے .... اور قابل ملامت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس شخص نے یہ لطیفہ گھڑا ہے اور جنہوں نے نشر کیا ہے میں انہیں چیلنج کرتی ہوں کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ سے دستبردار ہو کر ایک مسلمان کی حیثیت سے صرف ایک ماہ انڈیا میں باعزت طریقے سے رہ کر دکھا دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ 1947ءسے لیکر اب تک پاکستان ایک علیحدہ خود مختار اور بڑا ملک ہے .... انڈیا کو کیوں واپس کیا جائے؟ تیسری بات کہ انڈیا کے اپنے حالات مخدوش ہیں اس کے اندر علیحدگی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ غربت اس قدر زیادہ ہے کہ آدھی آبادی سڑکوں پر سوتی ہے (بے شک وہاں جا کر دیکھ لیں) بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں خواتین کو بھی پورے کپڑے پہننا نصیب نہیں ہوتا۔
پاکستان سے جو مچھیرے حادثاتی طور پر پکڑ لئے جاتے ہیں انڈیا کے اندر ان کے ساتھ بدترین سلوک ہوتا ہے، اذیتیں دی جاتی ہیں، مارا جاتا ہے کچھ مر بھی جاتے ہیں باقی جو آتے ہیں روتے چیختے ہوئے عبرتناک کہانیاں سناتے آتے ہیں اور آتے ہی پاکستان کی سرزمین پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ خدا کے واسطے ان غریب اور ناخواندہ مچھیروں کی حب الوطنی سے سبق سیکھیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ پاکستان ہمیں خیرات میں نہیں ملا۔ علامہ اقبالؒ، سر سیدؒ اور قائداعظمؒ اور ان کے عالی دماغ رفقائے کار کی مسلسل جدوجہد سے ملا ہے۔
ہنود اور یہود کی نفرتوں کا شکار بننے والے مسلمانانِ برصغیر کے لئے بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں آ کر مسلمانوں کو عزتِ نفس، تشخص، وقار اور مذہبی آزادی ملی ہے .... اگر قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمیں خود غرض اور نفس پرست لیڈر میسر آئے ہیں تو اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے۔ ابھی پاکستان کو وجود میں آئے صرف 63 سال ہوئے ہیں ملک بنانے اور چلانے میں سو سال بھی کم ہوتے ہیں .... ارے ناعاقبت اندیشو! گھٹیا لطیفے بنانے سنانے والو! پاکستان کس طرح بنایا گیا .... پاکستان کے پاس فوج نہیں تھی، کرنسی نہیں تھی، خزانہ نہیں تھا .... سال بھر کی گندم نہیں تھی، دفانہیں تھے .... کس کس بات کا ذکر کروں .... ایک مثال دے سکتی ہوں یوں سمجھئے کہ کسی امیر کبیر والدین کے اکلوتے بیٹے نے پسند کی شادی کر لی ہو تو والدین اس کو اس کی بیوی سمیت تین کپڑوں میں نکال باہر کرتے ہیں .... یہ حال تھا پاکستان کا ....!ناشکرو! آج پاکستان کو دیکھو .... کوئی شہر اور کوئی سڑک موٹروں سے خالی نہیں۔ نئی آبادی کو دیکھو محلات بنے ہوئے ہیں۔ نئے پلازوں کو دیکھو .... بازار دیکھو .... کارخانے دیکھو .... معیار زندگی دیکھو ہمارے ہاں مالی اور ڈرائیور کے پاس موبائیل ہوتا ہے اور انڈیا کے سر ہمارے ملازموں جتنی تنخواہ لے رہے ہیں۔ اگر خدا نے عقل دی ہے تو خود موازنہ کرو ....
پانچویں بات یہ کہ .... پاکستان بناتے وقت زمین، خزانے اور وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں کی گئی .... کیوں .... کیونکہ انڈیا کے ارباب اقتدار کا خیال تھا کہ یہ لولا لنگڑا پاکستان صرف چند دن چلے گا پھر ان کی جھولی میں آ گرے گا۔ یہ حسرت ان کے دل میں اب بھی ہے اسی لئے انڈیا نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے .... حیدر آباد دکن ریاست اور ریاست جونا گڑھ میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور نظام دکن نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا .... مگر راتوں رات حد بندی میں تبدیلی کر دی گئی .... وہ کون بدنصیب ہیں .... جو پاکستان کو واپس کرنے کی بات کرتے ہیں .... پاکستان بنایا گیا ہے، تعمیر کیا گیا ہے، قربانیاں دی گئی ہیں، عالمی طاقتوں کو ہمنوا بنایا گیا ہے قائداعظم کی زندگی کے 72 سال اس پر صرف ہوئے ہیں .... ہماری جو نسلیں پاکستان کے اندر پیدا ہوئی ہیں وہ بوڑھی ہو رہی ہیں ایک دوسری نسل میدان میں ہے اور تیسری نسل اس وقت تعلیمی اداروں میں ہے .... جو نسلیں پاکستان کے اندر پیدا ہو رہی ہیں یہ پاکستان ان کا ہے .... جن نسلوں کے بزرگ شہید ہوئے ان کا لہو پاکستان کی بنیادوں میں ہے یہ پاکستان ان کا ہے .... یہ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے۔ یہ میرا اور میرے بچوں کا ملک ہے .... پاکستان اور قائداعظمؒ کے بارے میں لطیفے بنانے والے ہمارے ملک سے نکل جائیں۔
وہ چند چینل جو انڈیا کو فروغ دے کر روپیہ کما رہے ہیں وہ پاکستان کے نمائندہ نہیں ہیں .... پورے پاکستان میں ان کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے .... ہماری نئی نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم ثقافتی سرحدوں پر حملہ کریں گے اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو تباہ کر دیں گے .... کیا ایسے چینل سونیا گاندھی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں ؟ ایسے تمام چینل نئی نسلوں کو تحریک پاکستان، علامہ اقبال، قائداعظم اور دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان سے لاتعلق بنا رہے ہیں اور انڈیا کو ایک بڑا ملک بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ چھٹی بات .... میڈیا کے ایسے لوگ انڈیا سے آنے والے سب اخبارات پڑھا کریں تاکہ ان کو علم ہو کہ وہاں غربت کی شرح کیا ہے، عام زندگی اور سیاست میں کس حد تک کرپشن ہے، وہاں کتنا قتل و غارت ہو رہا ہے، کس قسم کی دہشت گردی ہو رہی ہے .... مہنگائی کیسے فزوں تر ہو رہی ہے .... تعلیم کا کیا حال ہے .... پاکستان سے موزانہ کرنے سے پہلے یہ سب جاننا ضروری ہے .... اور اخلاقیات میں کس حد تک تنزل آ رہا ہے۔ جو انڈین وفود یہاں آتے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان ایک صاف ستھرا ملک ہے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق یہاں معیار زندگی بلند ہے۔ اشیائے خورد و نوش بہترین اور سستی ہیں اور وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انڈین فلموں میں جو عریانی اور فحاشی دکھائی جا رہی ہے وہ انڈیا کا کلچر نہیں ہے۔ وہاں بھی فلمیں بنانے والے دولت کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگ رہے ہیں اور ملکی کلچر کو تباہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کو بُرا کہنے والے ہر شخص کو اپنے گریبان میں منہ ڈال کے دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے .... کیونکہ اب ہر فرد پاکستان ہے۔ جو پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کر رہا ہے .... غیر شرعی حرکتیں کر رہا ہے .... مذہب کا استحصال کر رہا ہے .... ملاوٹ کر رہا ہے، گراوٹ کر رہا ہے .... اندھا پیسہ بنا رہا ہے .... ملکی راز فروخت کر رہا ہے .... چور دروازے سے ثقافت لا رہا ہے .... ملکی خزانہ لوٹ رہا ہے .... علم فروخت کر رہا ہے، غریب کا لہو چوس رہا ہے، اپنے اعمال میں خود غرض اور نفس پرست ہے۔ سنو! اے لوگو! جو پاکستان کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہو .... پاکستان بن چکا ہے .... یہ ایک حقیقت ہے .... اور پاکستان نے قیامت تک سلامت رہنا ہے۔ انشاءاللہ!اگر تقلید کرنی ہے تو اس بات کی کرو کہ انڈین سارے نیشنلسٹ ہیں جب پاکستان میں آتے ہیں تو اپنے ملک کی بُرائی نہیں کرتے جبکہ ہمارے ہاں غیر ملکیوں کے سامنے ملک کی بُرائی کرنا فیشن ہے۔ (جاری )


http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/29-Nov-2010/16625
 

میر انیس

لائبریرین
علی صاحب یقین کریں آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی ہے ۔ کافی عرصہ سے میں خود یہی سب باتیں سوچ رہا تھا بس یہ کہ لیں کہ آپ نے میری سوچ کو الفاظ دیدئے۔ آپ اپنی بات پوری کرلیں کیوں کہ آپ نے جاری ہے لکھ دیا ہے پھر میں اس پر کھل کر تبصرہ کروں گا۔ مختصراََ یہ کہنا چاہوں گا کہ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے یہ انڈیا کی آنکھوں میں کھٹکتا ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسنے پاکستان پر کئی جنگیں مسلط کیں اب وہ اپنی ثقافت کے ذریعے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ بدل رہا ہے
 
یہ لوگ کس کے ایجنٹ اور غلام ہیں؟2

میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور فیچر فلمیں انسانوں کے اذہان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ بندہ سنی ہوئی بات بھول جاتا ہے مگر پڑھی ہوئی اور دیکھی ہوئی بات نہیں بھول پاتا۔ بچپن میں ہر آدمی کا ذہن، صاف روشن اور تیز ہوتا ہے اور تین چار سال کی عمر سے لے کر آگے جوانی تک اردگرد کا ماحول اس کی تربیت نفسی کرتا ہے اسی لئے ماہرین نفسیات نے یہ کہا ہے کہ ماحول جس میں بچہ پلتا اور بڑھتا ہے۔ اس کے کردار پر ضرور اثرانداز ہوتا ہے.... اسکے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر معاشی اور سماجی لحاظ سے چار قسم کے طبقے ہیں۔ اول، دوئم، سوئم اور نچلا طبقہ.... جن گھروں میں والدین تعلیم یافتہ ہیں اور بہترین کفالت کرسکتے ہیں وہاں بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، مگر ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو محنت مزدوری کرتا ہے، بچوں کی تعلیم اور تربیت پر پیسہ نہیں خرچ سکتا، بچے خود رو پودوں کی طرح خود ہی بڑھ جاتے ہیں اور وہ اپنے لئے خود ہی ذریعہ معاش اور مقصدِ زندگی بنالیتے ہیں۔ ایسے بچے بچپن میں سینما کے اندر یا ٹیلیویژن پر ارتکابِ جرم اور جزا و سزا پر جب فلم دیکھتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں میزان نہیں ہوتا، لامحالہ انکا ذہن اس تھرل کی جانب لپکتا ہے جس میں جرم کے نئے طریقے چھپے ہوتے ہیں اور اس لذت کی طرف جاتے ہیں جو اذیت پسندی سے حاصل ہوسکتی ہے۔
میں اب یہاں ایک مثال پیش کرتی ہوں۔ میں جب صوبائی اسمبلی پنجاب کی رکن تھی، مجھے فلم سنسرشپ بورڈ کا ممبر بنایا گیا۔ تقریباً دس سال میں ممبر رہی۔ یہ 90ءکی دہائی کی بات ہے۔ ان دس سالوں میں، میں نے اردو اور پنجابی فلمیں سنسر کیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 90 فیصد فلمیں غیرمعیاری اور مایوس کن تھیں۔ ان دنوں فلموں میں قتل و غارت اور دہشت گردی کے بہت واقعات دکھائے جاتے تھے۔ ایک ہیرو یا ولن کھڑے کھڑے کئی لوگوں کو بھون کر رکھ دیتا تھا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ یعنی وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر خود ہی سزا دے دیتا تھا۔ پولیس جب آتی تو اسے شاباش دیتی تھی۔ مجھے یاد ہے ان دنوں ایک بڑی بے معنی سی فلم آئی جس میں ہیرو کے ہاتھ میں ایک چھرا ہمہ وقت رہتا ہے اور اس کا لباس ہمیشہ خون سے رنگین رہتا ہے۔ جب گاﺅں میں کوئی مظلوم فریاد کرتا ہے، وہ اپنے چھرے سمیت آدھمکتا ہے اور ظلم کرنیوالوں کو اس چھرے سے تہہ تیغ کردیتا ہے۔ میں نے اس فلم پر بہت اعتراض اٹھایا۔ فلم پاس نہ کی، میرا موقف تھا کہ کوئی انسانی معاشرہ اس قسم کے انصاف یا شخصی فیصلہ کی توثیق نہیں کرسکتا، آپ یہ مناظر نہ دکھائیں۔ ایسی فلمیں نہ بنائیں، کچے ذہن کے بچوں پر برا اثر ہوگا۔ میری مخالفت کے باوجود کسی نہ کسی طرح وہ فلم پاس کروالی گئی (پاس کروانے کے ان کے پاس کئی سلیقے ہوتے ہیں) یہ فلم ایک چھوٹے شہر میں دکھائی جا رہی تھی۔ ایک دن اخبار میں خبر آئی کہ ٹکٹوں والی قطار لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ دو نوجوان لڑکے آپس میں لڑ پڑے اور ایک لڑکے نے چھرا نکال کر دوسرے لڑکے کے پیٹ میں گھونپ دیا جو موقع پر فوت ہوگیا۔ یہ یقیناً اس فلم کا ردعمل تھا۔ بعد میں پورے سنسر بورڈ نے میرے موقف کی تائید کی۔ بیس سال تک ایسی خون آلود فلمیں دیکھنے کے بعد نئی نسل میں منفی اثر قبول کرنے والے لوگ ضرور پیدا ہوجاتے ہیں۔
پھر ایک اجتماعی آبروریزی کا سین بڑے لذیذ انداز میں دکھایا جاتا تھا جس میں عورت ذات کی تذلیل کا پہلو سامنے آتا تھا۔ فلم بناتے وقت، ڈرامہ بناتے وقت ان تمام طبقوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ آج کے اس دور نے ثابت کردیا کہ دہشت گردی کی تکمیل میں آلہ کار بننے والے نوجوان ہوتے ہیں۔ بازار میں ذرا ذرا سے جھگڑے پر چاقو چھرا نکال لینے والے بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اجتماعی آبروریزی، عورت کا اغوا، عورت کو برہنہ کرکے نچوانا یہ سب اسی ضمن میں آتا ہے، کسی کا یہ کہنا فلم محض فلم ہوتی ہے، ڈرامہ بس ڈرامہ ہوتا ہے، غلط ہے۔ فلم، ڈرامہ اور کتابیں غیرمحسوس طریقے پر انسان کی تربیت کررہی ہوتی ہیں۔ انکو اچھے برے راستوں کو انتخاب کرنے کی ترغیب دے رہی ہوتی ہیں۔ بے مقصد فکشن اور بے مقصد فلم محض وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔
اب میں ملکی ٹیلیویژن کی طرف آتی ہوں۔ ہمارے ڈراموں نے سونی کے ڈراموں، لباسوں، مکالموں کی صورت اختیار کرلی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ہماری لڑکیاں اسی ڈگر پر چل نکلی ہیں جبکہ ایک زمانے میں ہمارے معاشرتی ڈرامے برصغیر میں ہر دلعزیزی کا ریکارڈ قائم کئے ہوئے تھے۔
آج کی نسلوں کی خوش نصیبی بھی یہی ہے اور بدنصیبی بھی یہی ہے۔ والدین کی طرف سے انہیں بہت آزادی ہے۔ خود والدین انکے ساتھ بیٹھ کے سب پروگرام دیکھتے ہیں۔ اگر آج آپ نظریہ پاکستان کا مذاق اڑائینگے، قائداعظمؒ کے بارے میں لطیفے بنائینگے، تو انکے ذہن میں یہی خیالات رہ جائینگے۔ اگر اپنے اکابرین کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار کرینگے تو وہ اذہان میں انہیں اپنا آئیڈیل بنائینگے۔ نئی نسلوں کو تیز کرنے کی آدھی ذمہ داری الیکٹرانک میڈیا پر آگئی ہے کیونکہ معصوم بچے بھی ماں کی زیادہ نہیں سنتے، ٹی وی کی زیادہ سنتے ہیں۔
کل کی بات سناتی ہوں، میں اسلام آباد میں تھی۔ میری گاڑی پارلیمنٹ لاجز کے پورچ میں رکی۔ وہاں چار چار پانچ پانچ سال کے لڑکے اور لڑکیاں کھیل رہے تھے۔ ایک پیاری سی چار سال کی بچی نے ایک پانچ سال کے لڑکے کو دیکھ کر گانا شروع کردیا....ع
”منی بدنام ہوئی حمزہ تیرے لئے“
میرے خیال میں دوسرے لڑکے کا نام حمزہ تھا۔ اس کو آپ ایک بچگانہ حرکت نہیں کہہ سکتے۔ کوئی نشہ ہے جو ذہن میں اتر کے بعض اقدار سے بے نیاز کرتا جاتا ہے۔
میں مانتی ہوں کہ ہمارے ہاں بہت برائیاں پیدا ہوئی ہیں مگر کوئی مجھے بتائے کونسا معاشرہ ایسا ہے جس میں انسانی برائیاں یا عیوب نہیں ہیں۔ قانون ہوتا ہے تو قانون توڑنے والے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اگر انصاف مہیا کرنیوالے مضبوط نہ ہوں تو لوگ انصاف خریدنے لگتے ہیں۔ آج ہمیں نہ صرف نئی نسلوں کی بلکہ اپنی بھی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی جگہ پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا بلکہ دوسروں کو تلقین کئے دے رہا ہے اور ملامت کے ڈونگرے برسا رہا ہے۔ دوسری بڑی برائی یہ ہے کہ سب کے سب دولت کمانے کی دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔ رزق حلال پر قناعت کرنیوالے کم رہ گئے۔ جس کو جہاں سے فائدہ ہے وہیں چلا جاتا ہے۔ لوگ کسب معاش نہیں کرنا چاہتے بلکہ عیش و نشاط کے طالب ہیں۔ زیادہ اور زیادہ اور سے بھی زیادہ.... ان کا مطمح نظر ہے۔ جو لوگ پاکستان کو مذاق بنا رہے ہیں ان کی آمدنی کا گوشوارہ منگوا کر دیکھیں، کل جو لوگ مفلوک الحال تھے، بادشاہ بنے بیٹھے ہیں۔
ایک عالی ظرف صحافی جناب شریف فاروق کا مضمون ”برصغیر کا مردِ حریت قائداعظم جناحؒ“ اس وقت میرے سامنے ہے۔ اس کے دیباچے میں سے چند لائنیں یہاں نقل کر رہی ہوں۔ شاید ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہوں جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں۔
(1) وہ کہتے ہیں.... تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحے کا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر قائداعظمؒ نہ ہوتے تو شاید پاکستان کبھی نہ بنتا۔ وہ لوگ جو پاکستان سے پہلے گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں رہتے تھے آج بنگلوں میں رہ رہے ہیں۔
(2) جو پیوند لگے ایک جوڑا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھے، وہی لوگ بہترین لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔
(3) جو لوگ گدھے اور اونٹ پر سواری سے زیادہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، آج مرسڈیز بینز اور لینڈ کروزر میں سفر کرتے ہیں۔
(4) جو لوگ باجرے اور مکئی کی سوکھی روٹی بمشکل کھا سکتے تھے، وہ مرغ پلاﺅ، حلوے، فرنی اور بسیار خوری کی وجہ سے ذیابیطس اور فشارِ خون میں مبتلا ہیں۔
(5) جس گاﺅں میں ایک پٹواری نہیں ہوا کرتا تھا، وہاں کئی کئی ڈی سی اوز ہیں۔
(6) جہاں ایک پولیس کا سپاہی نہیں ہوتا تھا، وہاں پولیس کپتان اور پولیس کے جرنیل ہیں۔
(7) جس گاﺅں میں فوج کا سپاہی بھی بڑا آدمی شمار ہوتا تھا، وہاں کئی فوجی جرنیل ہیں۔
( جہاں پورے ضلع میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور ایک ایس ڈی او نہیں ملتا تھا، وہاں پر آج گھر گھر میں سپیشلسٹ ڈاکٹر اور بڑے بڑے انجینئر ہیں۔
(9) جہاں پر ایک سکول ماسٹر پیدا ہورہا تھا جو ممکنات میں سے تھا وہاں ہر مضمون کے پروفیسروں کی بہتات ہے۔
(10) جن علاقوں میں وکیل کا منشی نہیں ملتا تھا، وہاں بڑے بڑے وکلاءہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج ہیں۔
(11) جہاں دس دس دیہات پر کہیں کرائے کے کچے مکان میں پرائمری سکول ہوا کرتا تھا وہاں ہر چھوٹے گاﺅں میں بے شمار سکول اور کالجز ہیں.... علی ہذا القیاس!
آخر ناشکری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ قائداعظمؒ پر تنقید کرنے والے شاید جانتے نہیں کہ 1939ءمیں انہوں نے وصیت کرکے اپنی جائیداد اپنے رشتہ داروں کی بجائے پاکستان کے مسلمانوں میں تقسیم کردی۔ کوئی ایسی شخصیت ہے پاکستان میں.... سامنے لاﺅ.... ورنہ....
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی


http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/30-Nov-2010/16654
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلام میں تقافتی فائر وال کا تصور ہے جس کے مطابق دوسروں کی تہذیب کی اچھی چیز لے سکتے ہیں اور بری چیزوں کو اپنے معاشرے میں نفوذ کی اجازت نہیں دی جاتی۔
 
Top