یہ عِشق والوں کے قِصے عجیب لگتے ہیں غزل نمبر 184 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
یہ عِشق والوں کے قِصے عجیب لگتے ہیں
کبھی مِلتے ہی نہیں بد نصیب لگتے ہیں

نظر نہ ہم سے چُراؤ کہ چاہتے ہیں تمہیں
اے گل بدن! ترے ہم عندلیب لگتے ہیں

ہر ایک شخص ہے مطلب پرست دُنیا میں
رفیق کِس کہ کہیں سب رقیب لگتے ہیں

ہم عادی ظُلمتوں کے اِس قدر ہوئے کہ اب
کبھی کبھی یہ اُجالے مُہیب لگتے ہیں

جو کام آتے نہیں ہیں کسی کے ذِی ثروت
امیر ہیں مگر دِل کے غریب لگتے ہیں

ہے مال و زر کی فراوانی یہاں جس کے پاس
زمانے بھر کو بس وہ ہی نجیب لگتے ہیں

ترے بغیر نہ دن میں سکوں نہ رات میں نیند
دِل و دماغ میرے بے شکیب لگتے ہیں

عجیب بات جنہیں دین کی سمجھ ہی نہیں
وہ اپنے طرزِ بیاں سے خطیب لگتے ہیں

خیال رکھتے ہیں
شارؔق جو رب کے بندوں کا
وہی تو لوگ خُدا کے قریب لگتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر یاسر شاہ
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
یہ عِشق والوں کے قِصے عجیب لگتے ہیں
کبھی مِلتے ہی نہیں بد نصیب لگتے ہیں
ہماری زمین میں ہی غزل!
دوسرا مصرع سمجھ سے باہر بھی ہے اور بحر سے بھی

نظر نہ ہم سے چُراؤ کہ چاہتے ہیں تمہیں
اے گل بدن! ترے ہم عندلیب لگتے ہیں
دو لخت محسوس ہوتا ہے، شتر گربہ بھی ہے، 'اے' کی ے کا اسقاط گوارا نہیں کیا جا سکتا

ہر ایک شخص ہے مطلب پرست دُنیا میں
رفیق کِس کہ کہیں سب رقیب لگتے ہیں
اگر 'کہ' درست ہے تو شعر واضح نہیں، ہاں اگر 'کو' غلط ٹائپ ہوا ہے تو شعر درست

ہم عادی ظُلمتوں کے اِس قدر ہوئے کہ اب
کبھی کبھی یہ اُجالے مُہیب لگتے ہیں
عادی کی ع کو الف کی طرح وصال غلط ہے، 'کہ' بطور 'کے' میں تو قبول نہیں کرتا

جو کام آتے نہیں ہیں کسی کے ذِی ثروت
امیر ہیں مگر دِل کے غریب لگتے ہیں
دوسرا مصرع بحر سے خارج، پہلا مصرعہ مفہوم سے عاری

ہے مال و زر کی فراوانی یہاں جس کے پاس
زمانے بھر کو بس وہ ہی نجیب لگتے ہیں
پورا شعر تقطیع پر پورا نہیں اترتا!
ہے مال و زر کی فراوانی جس کے پاس یہاں
زمانے بھر کو وہی بس نجیب لگتے ہیں
ذرا سی الٹ پھیر سے درست ہو جاتا ہے!

ترے بغیر نہ دن میں سکوں نہ رات میں نیند
دِل و دماغ میرے بے شکیب لگتے ہیں
درست

عجیب بات جنہیں دین کی سمجھ ہی نہیں
وہ اپنے طرزِ بیاں سے خطیب لگتے ہیں
لگتے ہیں ردیف یہاں مفہوم کے اعتبار سے غلط لگتی ہے، بن کے بیٹھے ہیں، یا، کہلانا چاہتے ہیں قسم کا کچھ ہونا تھا
خیال رکھتے ہیں شارؔق جو رب کے بندوں کا
وہی تو لوگ خُدا کے قریب لگتے ہیں
یہاں بھی لگتے کا نہیں، ہوتے کا مقام ہے
 

امین شارق

محفلین
الف عین اب یہ غزل دیکھئے گا کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ٰٰ[کبھی یہ ملتے نہیں بد نصیب لگتے ہیں]یہ اس لئے کہا ہے کہ عشق کے قصوں میں محبوب و محب کو ملتے ہوئےکبھی نہیں دیکھا یعنی ان کا ملن نہیں دیکھا۔

یہ عِشق والوں کے ِقصے عجیب لگتے ہیں
کبھی یہ ملتے نہیں بد نصیب لگتے ہیں

اے گُل تو اپنی محبت پہ اتنا مت اِترا
کہ ہم بھی اک حسیں کے عندلیب لگتے ہیں

ہر ایک شخص ہے مطلب پرست دُنیا میں
رفیق کس کو کہیں سب رقیب لگتے ہیں

ہمیں خُو ہوگئی ظُلمت کی اس قدر کے اب
کبھی کبھی یہ اُجالے مُہیب لگتے ہیں

ہے مال و زر کی فراوانی جس کے پاس یہاں
زمانے بھر کو بس وہ ہی نجیب لگتے ہیں

ترے بغیر نہ دِن میں سُکوں نہ رات میں نیند
دِل و دماغ مرے بے شکیب لگتے ہیں

فریبِ عشق جو کھاتے ہیں بار بار یہاں
ہمیں وہ لوگ عجیب و غریب لگتے ہیں

وصالِ یار کی اُمید بھی گئی
شارؔق
ہماری موت کے دِن اب قریب لگتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اے گُل تو اپنی محبت پہ اتنا مت اِترا
کہ ہم بھی اک حسیں کے عندلیب لگتے ہیں
اے گل میں وہی ے کا اسقاط ہے، ذرا دماغ استعمال کر کے تبدیلی کی جا سکتی ہے
نہ اترا اپنی محبت پہ اتنا تو اے گل
دوسرے مصرعے کو بھی بدلو کہ 'اک حسِ کے' تقطیع اچھی نہیں
ہمیں خُو ہوگئی ظُلمت کی اس قدر کے اب
کبھی کبھی یہ اُجالے مُہیب لگتے ہیں
ہمیں اندھیروں کی اس درجہ ہو گئی/چکی عادت
زمانے بھر کو بس وہ ہی نجیب لگتے ہیں
میرا مجوزہ مصرع قبول نہ کرنے کی وجہ؟
باقی درست ہو گئے ہیں اشعار
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر بہت نوازش ہے آپ کی کہ آپ نے رہنمائی کی۔اشعار اب درست کردئے ہیں۔

یہ عِشق والوں کے ِقصے عجیب لگتے ہیں
کبھی یہ ملتے نہیں بد نصیب لگتے ہیں

نہ اِترا اپنی محبت پہ اتنا تو اے گُل!
کہ ہم بھی اک کلی کے عندلیب لگتے ہیں

ہر ایک شخص ہے مطلب پرست دُنیا میں
رفیق کس کو کہیں سب رقیب لگتے ہیں

ہمیں اندھیروں کی اس درجہ ہو گئی عادت
کبھی کبھی یہ اُجالے مُہیب لگتے ہیں

ہے مال و زر کی فراوانی جس کے پاس یہاں
زمانے بھر کو وہی بس نجیب لگتے ہیں

ترے بغیر نہ دِن میں سُکوں نہ رات میں نیند
دِل و دماغ مرے بے شکیب لگتے ہیں

فریبِ عشق جو کھاتے ہیں بار بار یہاں
ہمیں وہ لوگ عجیب و غریب لگتے ہیں

وصالِ یار کی اُمید بھی گئی شارؔق
ہماری موت کے دِن اب قریب لگتے ہیں
 
Top