یہ طرز زندگی کیسا؟

ساجدتاج

محفلین
یہ طرز زندگی کیسا؟


السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔


ایک مومن اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہپے کہ جب ہم کسی سے ملیں تو سلام کریں لیکن افسوس کہ ہم اپنی لائف عجیب طریقے
سے گزار رہے ہیں۔ فیس ٹو فیس ملیں یا جب بھی کسی سے فون پر بات ہو تو ہم سلام کی بجائے گالی گلوچ یا لعن طعن سے سامنے والے کو مخاطب کرتے ہیں اور سامنے والے پر بھی آفرین ہےجو اُس کو ٹوکنے کی بجائے اُس کی بات پر ہنس رہا ہوتا ہے ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو آگے سے کہتے ہیں کہ ہمارا مذاق ہے ہم سیریس تھوڑی نہ ایسا کہتے ہیں ۔ حد ہو گئی جہالت کی بھی یہ کیسا مذاق ہے یا یہ کیسا پیار ہے ؟ جو ایک دوسرے کو گندی گندی گالیاں دے کر ظاہرکرتے ہیں ۔ ایسا پیار دِکھا کر ہمیں کتنے نوافل کا ثواب مل رہا ہے؟
سلام کی بجائے ہم ہیلو فرینڈ ، ہائے گائز یہ کون سے طریقے ہیں کسی سے مخاطب ہونے کے لیے؟

پانی پینے لگتےہیں تو ایسے جھٹ سے پانی کے گلاس کو ختم کرتے ہیں جیسے ہم نے کسی مقابلے میں حصہ لیا ہو۔ پانی پینے کے بہت سے آداب ہیں اور سنت رسول بھی۔ بسم اللہ پڑھے بغیر پانی ، سیدھے ہاتھ کی بجائے اُلٹے ہاتھ سے برتن کو پکڑنا، ٹھہر ٹھہر کر پینے کی بجائے ایک ہی سانس میں پی جانا، بیٹھ کر پینے کی بجائے کھڑے ہو کر پینا یہ سب پانی کے آداب کے خلاف ہے۔

کھانا کھاتے وقت ہم بہت لاپرواہی کرتے ہیں بڑے بڑے نوالے لے کر جلدی جلدی کھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح جلدی بازی میں ہم بسم اللہ پڑھنا بھول جاتے ہیں یا کھانا کھانے کی دُعا بھول جاتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر کھانے کے دوران یاد آجائے کہ ہم نے بسم اللہ نہیں‌پڑھی تو اُس وقت بھی دُعا پڑھنا بھول جاتے ہیں اور اکثر لوگوں کو ان دعائوں کا علم ہی نہیں۔

اللہ تعالی نے دن کام کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی لیکن ہم نے اس کے برعکس کام کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ہم نے دن کو آرام اور رات کو کام کرنے کا شیوا بنا رکھا ہے۔انسان صبح اُٹھے فجر کی نماز پڑھے پھر قرآن پاک کی تلاوت کرے اور اپنی روزی کی تلاش میں نکل جائے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے اپنے بندے سے کیا ہے۔ لیکن ہم اپنی نمازوں سے غافل ہو کر دن کو سوتے ہیں اور رات دیر تک اپنے کاروبار کی ترقی کے لیے کوششیں کر رہے ہوتے ہیں۔

جب انسان سفر میں ہوتا ہے تو اپنی منزل تک خریت سے پہنچنے کے لیے گھر سے نکلنے کی دُعا، سفر کی دُّعا اور سواری پر بیٹھنے کی دُعا پڑھنی چاہیے لیکن ہم اللہ تعالی کی پناہ میں آنے کی بجائے شیطانی کاموں کو اپنے اوپر حاوی کر لیتے ہیں۔ سفری دعائیں پڑھنے کی بجائے پم اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر گانے سننے لگ جاتے ہیں اور اس شیطانی کام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ہم اللہ تعالی سے حفاظت کی اُمید کیسے رکھ سکتے ہیں؟

کہتے ہیں نا کہ اگر انسان اچھی صحبت میں اُٹھتا بیٹھتاہو تو اپنے اندر بہت سی تبدیلیوں کو محسوس کرتا ہے جب کچھ لوگ خالص اللہ تعالی کی محبت کے لیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اللہ تعالی بھی اپنے بندوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جب ہم کسی سے ملیں تو اللہ تعالی واحدانیت، اُس کی بڑائی اور اُس کی حمد و ثنا بیان کریں اور اُس کی نعمتوں‌کو شکر ادا کریں لیکن افسردہ دل سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب ہم دوستوں کے بیچ بیٹھے ہوتے ہیں تو ہمارا موضوع عورت، پیسہ ، شہرت اور فحش باتیں ہوتی ہیں۔

ویسے تو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں‌کتنی ہی کتابیں‌پڑھ ڈالتے ہیں جس میں‌ مزاحیہ کلام ، شعر و شاعری ، لطائف ، قصے اور من گھڑت کہانیاں شامل ہوتی ہیں لیکن ایک کتاب کو پڑھنا بھول جاتے ہیں یا اگر یوں کہہ لیں‌تو غلط نہ ہو گا کہ ہم پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے اگر پڑھ لیا جائے تو انسان کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی تاریخ جیسے کس وقت میں کیا ہوا، کیوں ہوا ، کیسے ہوا اور کس لیے ہوا یہ سب کچھ ہمیں قرآن پاک کو پڑھنےسے پتہ چل سکتا ہے بشرط کہ ہم اُس کو نہ صرف پڑھیں بلکہ سمجھیں اور عمل بھی کریں۔

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عور پر فرض ہے۔ ان الفاظ کو ذہنوں میں بڑھا کر ہم دنیاری تعلیم کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اچھی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر بن جاتا، کوئی انجیئنر، کوئی پائلٹ ، کوئی آرمی جوائن کر لیتا ہے، کوئی پولیس فورس میں چلا جاتا ہے، کوئی بزنس مین بن جاتا ہے، کسی کو بنک میں اچھی سیٹ مل جاتی ہے، اسی طرح ہزاروں شعبے ہیں جن میں نوکری کرنے کے لیے ہم محنت کرتے رہتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے شعبوں میں ترقی پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پڑھائی کرتے ہیں یہاں تک متعلقہ کتابوں کو حفظ ہی کر ڈالتےہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے رائٹر یہ خودی ہی ہوں۔ پھر سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں کامیابی کے لیے تو محنت کر لی لیکن آخرت کی کامیابی کے لیے کیا ہم نے تیاری کی ؟ دنیاوی تعلیم حاصل کر لی کیا دینی تعلیم حاصل کی ؟ دنیا سنوار لی کیا آخرت سنواری؟ دنیا میں نام بنا لیا کیا آخرت میں‌کوئی نام بنے گا؟ دنیا میں سب کو راضی کر لیا لیکن کیا اپنے اللہ کو راضی کیا ؟ دنیاوی علم حاصل کر کے دوسروں تک پہنچایا کیا اللہ تعالی کا حکم دوسروں تک پہنچایا؟ دنیاوی کتابوں کو حفظ کرتے گئے کیا اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب “قرآن پاک“ کی ایک آیت کو بھی حفظ کیا؟ اگر دنیاوی علم حاصل کرنا ضروری ہے تو کیا اپنی آخرت کو بہتر بنانے کے لیے دینی علم حاصل کرنا ضروری نہیں؟ دنیاوی علم کو فرض سمجھتے ہیں تو کیا دینی علم ہم پر فرض نہیں؟

ہم نے اپنی زندگی کو خود عجیب بنا کر رکھا ہوا ہے سچ بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی لائف کو مکمل طور پر دنیا کے لیے وقف کر رہے ہیں یہ بھی کہنا غلط نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگی کو دنیا کے لیے وقف کر چُکے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں ، عذاب کیوں آتے ہیں؟ پریشانیاں ہمیں کیوں گھیرے ہوئی ہیں۔ جب ہم اللہ تعالی کو بھول جائیں گے تو ہمارا یہی حال ہو گا۔ اللہ تعالی کی یاد سے غافل رہنے والا دنیا و آخرت میں ذلیل و رُسوا ہو گا۔

ہم اپنی زندگی کو خوبصورت اور خوشحال بنا سکتےہیں اگر ہم چاہیں تو ہم ہر لمحہ ثواب کے حقدار بن سکتے ہیں اور اپنے اللہ کو راضی کر سکتےہیں۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کام کی ایک دُعا بتلائی ہوئی ہے جیسے کھانا کھانے کی دُعا ، سوتے وقت کی دعا اور بیدار ہونے کی دُعائیں،سفر کی دُعا ، سواری کی دُعا، مسجد میں داخل اور باہر کی دُعا، بیماری کی دُعا ، گھر سے نکلنے اور داخل ہونے کی دُعا، بیت الخلاء میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کی دُعا،وضو کی دُعائیں ، مشکل حالات کے وقت کی دُعائیں، مصیبت کے وقت کی دُعائیں، قرض کی ادائیگی کی دُعائیں، فتنوں کسے بچنے کی دُعائیں، غم و فکر اور تکلیف کے وقت کی دُعائیں، اسی طرح ہر کام کے لیے ہمیں دعائیں بتلائی گئی ہیں اگر ہم ان دُعائوں کو روزمرہ کا معمول بنا لیں تو ہر وقت ہماری زبان سے اللہ تعالی کا نام نکلے گا جب ہر وقت ہماری زبان سے اُس پاک ذات کا نام نکلے گا تو ہم طرح کے شیطانی کاموں سے دور رہیں گے اور اللہ تعالی خود اپنے بندے کی حفاظت کرے گا اور جس کی حفاظت اللہ تعالی خود کرتا ہے اُسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی اُس کو کسی کی مدد کی ضرورتی ہوتی ہے۔

اپنی زندگی کو اللہ کے احکامات اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق گزاریں۔

تحریر : ساجد تاج
 
Top