یہ سلسلے وفا کے دیکھے نہیں کسی میں---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
فلسفی
خلیل الرحمن
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
----------
یہ سلسلے وفا کے دیکھے نہیں کسی میں
سیکھی وفا ہے میں نے تیری ہی دوستی میں
----------------
دنیا کو دیکھتا ہوں تیری نظر سے میں تو
پائی ہے تجھ سے میں نے اس کی ہی روشنی میں
-------------
بھولا نہیں ہوں ان کو جو بھی کئے تھے میں نے
وعدے وفا کے تجھ سے راتوں کی چاندنی میں
--------------
کیسے بھلا دوں اُس کو منظر حسیں تھا اتنا
ملتے تھے جب کبھی ہم تاروں کی روشنی میں
-----------------
سوچا نہیں تھا ایسا پردیس جا بسو گے
بھولو گے یاد میری میری ہی زندگی میں
--------------
آتا نہیں ہے مجھ کو بن کر رقیب جینا
میری خوشی ہے شامل اب یار کی خوشی میں
---------------
لڑتا نہیں ہے ارشد لوگوں سے اب کبھی بھی
رکھا نہیں ہے کچھ بھی دنیا سے دشمنی میں
-----------
 

الف عین

لائبریرین
یہ سلسلے وفا کے دیکھے نہیں کسی میں
سیکھی وفا ہے میں نے تیری ہی دوستی میں
---------------- مطلع واضح نہیں ہو سکا، وفا دونوں مصرعوں میں رپیٹ ہونا بھی اچھا نہیں

دنیا کو دیکھتا ہوں تیری نظر سے میں تو
پائی ہے تجھ سے میں نے اس کی ہی روشنی میں
------------- میں تو! شعر واضح. نہیں ہوا، کیا پائی ہے؟

بھولا نہیں ہوں ان کو جو بھی کئے تھے میں نے
وعدے وفا کے تجھ سے راتوں کی چاندنی میں
-------------- درست،

کیسے بھلا دوں اُس کو منظر حسیں تھا اتنا
ملتے تھے جب کبھی ہم تاروں کی روشنی میں
----------------- یہ بھی درست

سوچا نہیں تھا ایسا پردیس جا بسو گے
بھولو گے یاد میری میری ہی زندگی میں
-------------- یاد بھولنا عجیب محاورہ لگتا ہے مجھے بھلا دو گے یا بھول جاؤ گے درست ہو گا

آتا نہیں ہے مجھ کو بن کر رقیب جینا
میری خوشی ہے شامل اب یار کی خوشی میں
---------------درست

لڑتا نہیں ہے ارشد لوگوں سے اب کبھی بھی
رکھا نہیں ہے کچھ بھی دنیا سے دشمنی میں
-------- کبھی بھی!
لڑتا نہیں کسی سے، ارشد کو علم ہے آب/ ارشد کو یہ پتہ ہے
بہتر اولی مصرع ہو شاید
 
الف عین
---------------
اصلاح کے بعد دوبارا
----------------
ایسی وفا کبھی بھی دیکھی نہیں کسی میں
سیکھی ہے میں نے تجھ سے تیری ہی دوستی میں
----------------
محفل تری میں آ کر پائی ہے جو بصیرت
دنیا کو دیکھتا ہوں اس کی ہی روشنی میں
-------------
بھولا نہیں ہوں ان کو جو بھی کئے تھے میں نے
وعدے وفا کے تجھ سے راتوں کی چاندنی میں
--------------
کیسے بھلا دوں اُس کو منظر حسیں تھا اتنا
ملتے تھے جب کبھی ہم تاروں کی روشنی میں
-----------------
سوچا نہیں تھا میں نے پردیس جا بسو گے
بھولو گے مجھ کو ایسے میری میری ہی زندگی میں
--------------
آتا نہیں ہے مجھ کو بن کر رقیب جینا
میری خوشی ہے شامل اب یار کی خوشی میں
---------------
لڑتا نہیں کسی سے ارشد کو یہ پتہ ہے
رکھا نہیں ہے کچھ بھی دنیا سے دشمنی میں
 

الف عین

لائبریرین
ایسی وفا کبھی بھی دیکھی نہیں کسی میں
سیکھی ہے میں نے تجھ سے تیری ہی دوستی میں
---------------- محل تو 'تجھ سے ہی' کا ہے
تجھ سے ہی میں نے سیکھی یہ تیری دوستی میں

محفل تری میں آ کر پائی ہے جو بصیرت
دنیا کو دیکھتا ہوں اس کی ہی روشنی میں
------------- 'محفل میں تیری' رواں نہیں لگتا؟
دوسرے مصرع میں 'میں ََاس کی روشنی میں' بہتر ہو گا

بھولا نہیں ہوں ان کو جو بھی کئے تھے میں نے
وعدے وفا کے تجھ سے راتوں کی چاندنی میں
--------------
کیسے بھلا دوں اُس کو منظر حسیں تھا اتنا
ملتے تھے جب کبھی ہم تاروں کی روشنی میں
----------------- پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ درست ہیں

سوچا نہیں تھا میں نے پردیس جا بسو گے
بھولو گے مجھ کو ایسے میری میری ہی زندگی میں
-------------- اب ٹھیک ہو گیا

آتا نہیں ہے مجھ کو بن کر رقیب جینا
میری خوشی ہے شامل اب یار کی خوشی میں
---------------
لڑتا نہیں کسی سے ارشد کو یہ پتہ ہے
رکھا نہیں ہے کچھ بھی دنیا سے دشمنی میں
یہ دونوں بھی درست ہو گئے
 
Top