یہ خُود کشی سے کوئی ماورا پرندہ ہے --- رفیع رضا

مغزل

محفلین
غزل

یہ خُود کشی سے کوئی ماورا پرندہ ہے
جو زرد ھوتا ھُوا اک ھرا پرندہ ہے

اُڑاتا رھتا ھُوں زخمی پروں کے ساتھ اِسے
مرے لئے مرا حرفِ دُعا پرندہ ہے

یہ پھڑپھڑاتا ھُوا شُعلہ کھول دے کوئی
بندھا چراغ سے کیوں آگ کا پرندہ ہے

یہ بے پری ، یہ لہو ، یہ کراھتی آواز
یہ آئینے میں کوئی دُوسرا پرندہ ہے

ھوا تھمی ھے مگر شاخ کس طرح لرزی
شجرکے دل میں کوئی جاگتا پرندہ ہے

مری تو جاں پہ بنی ھے، مگر پرندے خُوش
کہ اُن کے ساتھ کوئی رھنُما پرندہ ہے

عجب نہیں کہ کہیں اس کا سانس ٹوٹ گِرے
یہ میرا دھیان فضا میں نیا پرندہ ہے

مرے لئے گُلِ حیرت کِھلا ھُوا رکھنا
رضآ ابھی میرے پاس آنکھ کا پرندہ ہے

رفیع رضا
 

محمداحمد

لائبریرین
مغل بھیا بہت ہی عمدہ غزل پیش کی ہے آپ نے

گو کہ ردیف نے بہت ہی محدود کردیا ہے اس کے باوجود رفیع رضا صاحب کی خیال آفرینی دیدنی ہے۔

دل خوش ہو گیا یہ غزل پڑھ کر۔
 
جناب یہ تو آپ نے ہمارے دوست رفیع رضا کی تازہ ترین غزل پیش کر دی ہے جو کہ انہوں نے حال ہی میں فیس بک پر شائع کی ہے، سبحان اللہ ، کیا انداز بیاں ہے۔
 
Top