یہ جو موسم پہ بہاروں کی گھٹا چھائی ہے ۔ غزل برائے اصلاح

مومن فرحین

لائبریرین
یہ جو موسم پہ بہاروں کی گھٹا چھائی ہے
تیری یادوں کو یقینا میری یاد آئی ہے

پھر تیرے نام کی افشا سے سجائی ہے یہ مانگ
رنگ پھر دیکھ میرے ہاتھ کا حنائی ہے

میرے ہونٹوں کی خموشی پے نہ جا اے میرے دوست
کیوں تیرے ذکر پہ آنکھیں میری شرمائی ہے

اب جو بچھڑوں تو کسی راہ میں تجھ سے نہ ملوں
دل نے یوں ترک تعلق کی قسم کھائی ہے

ہم نے بھی ترک تعلق کی قسم کھائی ہے
کسی دشمن نے ہی افواہ یہ اڑائی ہے

دل میں ہیں جو نہ انہیں دیکھ سکوں جی بھر کے
دل کی نظروں سے بھلا کیسی یہ لڑائی ہے

دیکھ کس حال کو لایا ہے تیرا عشق مجھے
رات ہے چاند ہے اور رقص میں تنہائی ہے

الف عین صاحب
محمد احسن سمیع:راحل:
خلیل الرحمن صاحب
اور دیگر اساتذہ
اساتذہ سے گزارش ہے کہ اپنا قیمتی وقت دے کر میری ٹوٹی پھوٹی کوشش کو دیکھ لیں ۔
 
آخری تدوین:
یہ جو موسم پہ بہاروں کی گھٹا چھائی ہے
تیری یادوں کو یقینا میری یاد آئی ہے
پہلے مصرعے میں مجھے محاورے کی غلطی محسوس ہوتی ہے کہ بہاروں کی گھٹا نہیں ہوتی.
دوسرا مصرع بھی کچھ مناسب نہیں لگتا. یادوں کو کسی یاد آنا کچھ عجیب سا لگتا ہے.

پھر تیرے نام کی افشا سے سجائی ہے یہ مانگ
رنگ پھر دیکھ میرے ہاتھ کا حنائی ہے
پہلے مصرعے میں غالبا ٹائپو رہ گیا ہے، یہاں افشاں آئے گا.
دوسرے یہ کہ تیرے وزن میں نہیں آتا، ترے آئے گا
دوسرے مصرعے میں بحر گڑبڑا گئی ہے، تیسرا رکن مفاعلن آرہا ہے، جبکہ اسے فعلاتن ہونا چاہیئے.

میرے ہونٹوں کی خموشی پے نہ جا اے میرے دوست
کیوں تیرے ذکر پہ آنکھیں میری شرمائی ہے
یہاں بھی پہلے مصرعے میں دوست سے پہلے میرے کے بجائے مرے آئے ورنہ وزن پورا نہیں ہوتا.
دوسرے میں آپ نے آنکھیں، جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے جو ردیف سے ساتھ میل نہیں کھاتا.
دونوں مصرعے مربوط بھی نہیں لگتے. یوں سوچ کر دیکھیں
میرے ہونٹوں کی خموشی پہ نہ جا اے مرے دوست
تو یہ بس سوچ مری آنکھ کیوں بھر آئی ہے

ہم نے بھی ترک تعلق کی قسم کھائی ہے
کسی دشمن نے ہی افواہ یہ اڑائی ہے
بھئی قافیہ اور ردیف کا التزام کرنا ہی ہے تو اس شعر کو حسن مطلع بنا لیں. لیکن دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے، اس کو دیکھنا ہوگا جبکہ بیان بھی اتنا مربوط نہیں.
ہم نے کب ترک تعلق کی قسم کھائی ہے
شاید افواہ رقیبوں نے یہ پیھلائی ہے

دل میں ہیں جو نہ انہیں دیکھ سکوں جی بھر کے
دل کی نظروں سے بھلا کیسی یہ لڑائی ہے
یہاں بھی دوسرا مصرع بحر میں نہیں ہے، جبکہ پہلے کی بنت بہتر کی جاسکتی ہے.

دیکھ کس حال کو لایا ہے تیرا عشق مجھے
رات ہے چاند ہے اور رقص میں تنہائی
حال کو لایا ہے کہنا ٹھیک نہیں لگتا. حال تک لے آیا یا حال میں لے آیا کہنا زیادہ قرین محاورہ ہو شاید. علاوہ ازیں تیرا عشق وزن میں پورا نہیں آتا، ترا عشق وزن میں آئے گا.
 

مومن فرحین

لائبریرین
یہ جو موسم پہ اداسی کی گھٹا چھائی ہے
یاد اک بھولی ہوئی بات تری آئی ہے

ہم نے کب ترک تعلق کی قسم کھائی ہے
پھر سے افواہ رقیبوں نے یہ پھیلائی ہے
(یہ آپ نے ہی ٹھیک کیا تھا )

تیری یادوں کے ستاروں سے سجایا آنچل
چاند بھی ماند ہوا چاندنی شرمائی ہے

اب جو بچھڑوں تو کسی راہ میں تجھ سے نہ ملوں
دل نے یوں ترک تعلق کی قسم کھائی ہے

کیا ضروری ہے کہ ہونٹوں کی خموشی ٹوٹے
بات ایسی بھی ہے آنکھوں نے جو سمجھائی ہے

اب تو آ جا کہ فقط تیرے لیے بزم سجی
رات ہے چاند ہے اور رقص میں تنہائی ہے

اب دیکھیں محمد احسن سمیع راحل بھائی
اگر بحر اور اوزان ٹھیک بیٹھ رہے ہوں تو مضمون میں ربط نکالنے کی کوشش نہ کیجیے گا :whew::sigh:
 
آخری تدوین:

مومن فرحین

لائبریرین
اللّه راحل بھائی آپ کو پتا ہے کتنی محنت سےبحر اور اوزان ٹھیک ہوئے ہیں ۔۔۔ :heehee:
اور مجھے لگتا ہے کہ اگر اب مضمون ٹھیک کرنے میں بھی اتنی ہی محنت لگی تو اگلی بار قلم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچوں گی ۔۔۔:lol:
 
اللّه راحل بھائی آپ کو پتا ہے کتنی محنت سےبحر اور اوزان ٹھیک ہوئے ہیں ۔۔۔ :heehee:
اور مجھے لگتا ہے کہ اگر اب مضمون ٹھیک کرنے میں بھی اتنی ہی محنت لگی تو اگلی بار قلم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچوں گی ۔۔۔:lol:
مضامین تو یہاں سب کے فی سبیل اللہ ٹھیک کیے جاتے ہیں :)
 
Top