یہ تیرے ’’ پُر اسرار‘‘ بندے

یہ تیرے ’’ پُر اسرار‘‘ بندے
ناصر محمود ملک | مارچ 2014
ye-pursirar-bande-300x336.jpg

ہم تو ٹھہرے گنہگار، دنیادار انسان۔ عبادات کی اہمیت و فرضیت معلوم ،لیکن عمل مفقود! وجہ تساہل پسندی،کاہلی۔حضرت غالبؔ ہماری کیا عمدہ ترجمانی کر گئے ہیں !!
؎جانتا ہوں ثوابِ طاعتُ و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیںآتی !
لیکن جب ہم تھوڑا غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسجد سے دوری کی واحد وجہ ہماری فطری سُستی ہی نہیں ہے بلکہ کچھ ایسی ’’مہربان ‘‘ ہستیاں بھی ہیں جن کے ساتھ ہمیں گاہے گاہے پالا پڑتا رہا ہے۔ زیرِنظر مضمون میںانہی ’’کرم فرمائوں‘‘ اور ان کی ’’نوازشوں‘‘ کا تذکرہ ہے۔
سب سے پہلے ہمارے محلے کی مسجد کے ایک محترم بزرگ کو ہی لیجیے! یہ اپنے دائیں بائیں کھڑے نمازیوں کو دورانِ نمازاپنے انتہائی قریب کرنے کے شوقین ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے ،لیکن اپنے اس شوق کے لیے وہ جس جارحیّت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ بھی بیچ نماز کے!کوئی ضعیف العقیدہ اور نحیف الجسم انسان
اس کا متحمّل نہیں ہو سکتا۔یہ صاحب ہمیشہ’’دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچیے‘‘ پر تُلے دکھائی دیتے ہیں۔قبلہ گاہی ہمیشہ اپنے گرد اور خصوصاًدائیں طرف کھڑے نمازی کو، بھلے وہ بے چارہ کتنا ہی قریب کیوں نہ کھڑا ہو،کھینچ کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیںاور یہی ان کا اصل ’’مِشن‘‘ ہے۔سچ پوچھیے تو اسی مشن کی تکمیل ہی ان کی اصل نماز ہے۔ طریقہ بڑا سادہ سا ہے کہ دائیں طرف کھڑے نمازی کی قمیص،شلوار،پینٹ ،ران (جو بھی فوری ہاتھ لگے)کوپکڑنا اور ایک جھٹکے
سے اپنے قریب کھینچ لینا۔ ہمارے ساتھ یہ’’جھٹکا‘‘ چونکہ آئے دن ہوتا رہتا ہے اس لئے ہم اسکی تفصیلات ومضمرات سے بخوبی و ’’مضروبی‘‘ واقف ہیں۔ہماری حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ نما ز میں ان صاحب کا ساتھ میسّر نہ آئے ۔لیکن بُرا ہو اس ضُعفِ دماغ کا کہ عین وقت پر بھول جاتے ہیںاور اکثر انہی کے ساتھ کھڑے پائے جاتے ہیں۔بس پھر کیا ہوتا ہے !ادھر امام صاحب نے تکبیرِاولیٰ کہی۔ان صاحب نے نماز شروع کی اور پھر لاشعوری طور پر اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا اورہماری
قمیص یاشلوار کو کھینچنا شروع کیا۔اس دوران میں اس کھینچا تانی سے بچنے کے لیے ہم اپنے آپ کو ان کے انتہائی قریب کرتے ہوئے اپنا بایاں پائوں،جو ان کے پائوں سے پہلے ہی ملا ہوتا ہے،کو اور بھی ساتھ ملا دیتے ہیں۔یہ گویا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ’’صاحب!!میں آپ کے انتہائی قریب کھڑا ہوں اور مزید قربت ،کم از کم نماز میں ،ممکن نہیںہے‘‘۔لیکن اُن کی تسلّی نہیں ہوتی اور کھینچا تانی جاری رہتی ہے۔اس ساری مشق کا سب سے اذّیت ناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ شلوار وغیرہ کا
گھیرا چونکہ بڑا ہوتا ہے لہٰذا اس کے کھینچنے سے ’مدّعا‘ پورا نہیں ہوتا۔چنانچہ اُن کا اگلا اور حتمی ٹارگٹ ہماری ’ران‘ ہوتی ہے۔وہ بظاہر بوڑھے اور کمزور ہاتھ کی بڑی سی چٹکی سے ران کو پکڑ کر کھینچتے ہیںاو ر ہم اُن کے ساتھ لگتے بلکہ ٹکرا جاتے ہیںاور انہیں سکون آ جاتا ہے۔نجانے اس نحیف ہاتھ کی مُڑی تُڑی انگلیوں میںاتنی طاقت کہاں سے آ جاتی ہے کہ ہمیں وہ چٹکی ’’پلاس‘‘ کی سی لگتی ہے۔چٹکی جب ران کو پکڑ رہی ہوتی ہے تو اس خاص لمحے ران کے ’’مقامِ اذّیت‘‘پر اک جھُرجھُری اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے! جیسے کمہار کے گدھے کی کمر کا وہ حصہ جھُر جھُراتا ہے جس پر ’’سوٹا‘‘پڑنے والا ہوتا ہے۔ اندریں حالات ہم مکمل’’سرنڈر‘‘ کرتے ہوئے ٹانگ ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیںاور بابا جی کو دل ہی دل میں مخاطب کرکے کہتے ہیں … ’’ پلیز! فِنش اِٹ‘‘
کچھ حضرات کو چھوٹے بچوں کے مسجد میں آنے سے سخت چِڑ ہوتی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ بچے اگر ان کے قریب کھڑے ہوں تو ان کے خشوع و خضوع میں خلل آتا ہے۔ بلا شُبہ انتہائی چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے پہ احتیاط ضروری ہے ۔اور بچوں کو شفقت وپیار سے سمجھانا بھی چاہیے۔مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ بے جا سختی کرتے ہیں !!چنانچہ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے وہ بچوں کوسختی سے پکڑ پکڑ کر دھکیل رہے ہوتے ہیں۔ایسے میں ان کا عموماً ٹارگٹ
بچوں کی نازک گردن ہوتا ہے۔بخدا جب بھی ہم یہ ’’پکڑن پکڑائی‘‘ دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔تب ہماری گردن بھی اکثر نشانے پر ہوتی تھی۔اب اگرچہ انگلیوں کے نشان تو شاید موجود نہ ہوں لیکن جب بھی ایسا منظر دیکھتے ہیں تو آج بھی وہ شکنجہ نُما گرفت گردن پر محسوس ہوتی ہے۔مسجد میں ان ’’بچہ بیزار ‘‘صاحبان سے کوئی پوچھے کہ ہمارے آقا و مولانبی رحمتﷺنے تو بچوں کی خاطر اپنے سجدے طویل فرمادیے اور خطبہ جُمعہ کے دوران بھی بچوں سے اظہارِ محبت فرمایا تو بھئی! آپ کی بیزاری اور نماز میں خلل کے بہانے کا کیا جواز بنتا ہے؟
دورانِ نماز موبائل فون بندرہنے چاہئییںاور نمازمیں موبائل فون کی آواز کسی کوبھی اچھی نہیں لگتی، لیکن آپ کے مشاہدے میں آیا ہو گا کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اب اگر غلطی سے کسی بیچارے نمازی کا فون ’’آن ‘‘رہ گیااور اُس کی گھنٹی بجی تو گویا اس کی اپنی ’’گھنٹی‘‘ بج گئی۔اِدھر نماز ختم ہوئی ادھر اس کی کلاس شروع ہو گئی۔ہماری مسجِد میں بھی3/4 صاحبان پر مشتمل یہ ’’اینٹی موبائل سکواڈ‘‘ موجودہے۔ ماشااللہ سے سبھی ستّر کے پیٹے میںہیں
لیکن مجال ہے کہ ’ثقلِ سماعت‘‘ انہیں چھو کر بھی گذری ہو۔دورانِ نماز دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر ،پورے خشوع و خضوع اور انتہائی انہماک کے ساتھ موبائل فون کی بیل پر کان دھرے رکھتے ہیں۔’’دامِ شنیدن‘‘ پوری مسجد میں پھیلایا ہوتا ہے۔ مجال ہے کہ معمولی سی ”Misbell” بھی ان کی سماعت سے بچ سکے۔ادھر کسی سے یہ ’’ جُرم‘‘ سرزد ہوا اُدھر اُس کی شامت آگئی۔ سلام پھیرتے ہی ’’توپوں ‘‘کا رُخ اُس ’’کم نصیب‘‘کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر اس ’’گستاخ‘‘ کی تادیب میںایک
سے بڑھ کر ایک جُملہ سننے کو ملتا۔’’فرمودات‘‘ جس روانی،بیساختگی اور حسنِ ترتیب سے اُن کے منہ سے نکلتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اُن کے لیے باقاعدہ تیاری کی گئی ہے۔گویا دورانِ نماز ہی ان ’’ارشادات‘‘ کی نوک پلک سنواری جاتی اور اس کی ’’ریہرسل‘‘ کی جاتی ہے۔اس ’’گُل افشانی‘‘ کے دوران ’’چیف آف سکواڈ‘‘ اگر سانس لینے کے لئے رُکیں تو اُن کا ”2 IC” ) (2nd In Command لُقمہ دینے کو موجود ہوتا ہے۔مسجد چونکہ برلبِ سڑک ہے ۔اس لیے ان صاحبان کو آئے دن
کوئی تازہ ’’شکار‘‘ ملتا رہتا ہے اور ہم ان کی ’زبان دانی‘ سے مُستفید ہوتے رہتے ہیں۔ ایک روز عجب واقعہ ہوا کہ نماز کے دوران جس موبائل فون کی گھنٹی بجی وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اسی ’’اینٹی موبائل گروپ‘‘ کے چیف کا تھا ۔تو گویا ’’صیاد ‘‘ خود زیرِدام آ گیا تھا۔بڑا اطمینان ہواکہ چلو آج حضرت خود ہی اپنی ’’کلاس‘‘ لیں گے۔سلام پھیرتے ہی حسبِ معمول کلاس تو انہوں نے ضرور لی، لیکن اس بار ’’روئے سخن‘‘ اس ’’گُستا خ‘‘ کی طرف تھاجس نے جانتے بوجھتے اوقاتِ نماز میں انہیں کال کرنے کی جسارت کی تھی۔فرما رہے تھے،’’کیسے ’’بے حیا‘‘ لوگ ہیںکہ نماز بھی سکون سے نہیں پڑھنے دیتے۔اب کے لگے ہاتھوں انھوں نے اس ’’بے فضول‘‘ ایجاد کے بدتمیز موجدکی بھی خبر لی جس کی اس ’’ خبیث‘‘ ایجاد یعنی موبائل فون کے فائدے توتھے لیکن اس کے نقصانات کہیں زیادہ تھے۔
ڈکار کی قربتِ خاص
ایک دفعہ اندرونِ لاہورمحلّے کی کسی مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔پہلی صف میں ہمارے دائیں طرف ایک ادھیڑ عُمرباریش شخص براجمان تھے۔نماز شروع کی تو اُ ن صاحب نے ڈکارنا شروع کر دیا۔ اندازبہت زوردار اور دھماکہ خیز تھا!! اپنے تسلسل اور طنطنے کے اعتبار سے یہ اپنی نوعیت کے عجیب ڈکار تھے۔ ان کی آوازواثرات نے پوری مسجد کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔معمولی قوّت شامہ والا بھی بتا سکتا تھا کہ موصوف نے لنچ میں کیا نوشِ جاںکیا ہے۔ ہمیں چونکہ ’’قربتِ خاص ‘‘میسّرتھی لہٰذا ہمیں حضرت کی گذشتہ دو تین دنوں کی ’’دستر خوانی مصروفیات‘‘ سے بلا واسطہ آگاہی ہو رہی تھی۔نماز میں ہمارے ’’خشوع و خضوع‘‘ کا حال ویسے ہی پتلا ہے اس پر مستزاد پڑوس میں ہونے والی یہ مسلسل ’’گھن گرج‘‘تھی۔ چناںچہ ذہن سے باقی ماندہ دھیان بھی جاتا رہا اور ہم پورے انہماک اور یکسوئی سے اُن ’’مساعی جمیلہ ‘‘ کا جائزہ لینے لگے جن کا مظاہرہ ہمارے دائیں طرف جاری تھا ۔
ہمارے ہاںابھی بھی لوگوں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جنھیں اگر عُمر کے ایک خاص حصے میں پہنچ کر بھی ’’گیس و تبخیر‘‘کا عارضہ لاحق نہ ہو تو وہ اُلٹازیادہ پریشان ہوتے ہیںاور لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ ’ ابّا جان اور دادا حضور تو ہماری عمر میں ’’باقاعدہ‘‘۔ دائمی مریض بن چکے تھے۔خدا خیر کرے !نجانے ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے‘۔اور پھر جب خدا واقعی’’خیر ‘‘کر دیتا ہے تو وہ سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔ہمارا قوی خیال ہے کہ ہمارے یہ’’ڈکاربردار‘‘ پڑوسی بھی اسی ’’طبقہء تبخیریہ‘‘ سے تعلّق رکھتے تھے۔
حملہ آور عطر بابا
پھر ہمیں وہ بزرگ صورت بابا جی یاد آتے ہیںجو جامع مسجد میں نمازیوں کو ’ عطر ‘ لگایا کرتے تھے۔ یہ تذکرہ ہمارے سابقہ محلّے کا ہے جہاں ہم کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔اب سچ پوچھیے تو اس محلے کو چھوڑنے کا سبب بھی یہی نیک سیرت مردِبزرگ ہی تھے۔محلے کے بیچ میں جامع مسجد واقع تھی جہاں ہم جمعہ پڑھنے کے لییحاضر ہوتے۔یہ بزرگ بڑی باقاعدگی سے وہاں تشریف لاتے۔ان کے پاس ہمیشہ رنگین کڑھائی داررومال میں لپٹی ایک چھوٹی سی عطر کی
شیشی ہوتی۔یہ صاحب مسجد کے اندرونی مرکزی دروازے پر تشریف رکھتے۔اپنے ’چوغے‘ کی سینے والی اندرونی لمبی جیب سے رومال نکالتے،اس کی پرتیں بڑی احتیاط سے کھولتے،شیشی میں پلاسٹک کا ’’سُرمچو‘‘ ڈالتے اور اس کا اگلا کونا عطر میں ڈبو کر باہر نکالتے اور پھر آنے والے ’’خوش نصیب‘‘ نمازی کے دائیں ہاتھ کی پُشت پر وہ عطر لگاتے اور اُسے معطّر ہاتھ کو اپنے سینے اور ملحقہ ’’علاقے‘‘پر پھیرنے کو کہتے۔ہاتھ پھرتے ساتھ ہی ’خوشبو‘ کی ایک لپٹ اُٹھتی۔اس پر وہ صاحب اس نمازی کی طرف تحسین طلب نظر سے دیکھتے۔
مذکورہ عطر سے ہمارے ’’فرار‘‘ کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ اس کی بدبُو تھی۔لیکن اس سے بھی بڑا سبب یہ تھا کہ اک زمانے میں ہمارے گائوں میں اسی ’’بُو‘‘ کا حامل عطرمُردوں کے کفن پر لگایا جاتا تھا۔عطر لگتے ہی پورا گائوں ایک انتہائی ناگوار بُو کی لپیٹ میں آ جاتا۔ گلیوں سے میّت گزر جاتی لیکن عطر ٹھہر جاتا۔ گھنٹوں وہاں سے گزرنے والوں کو پتہ چلتا رہتا کہ یہاں سے میّت گزری ہے۔نجانے کس ’’ خوش ذوق‘‘ نے اس کا آغاز کیا تھا ،لیکن اب یہ ’’عطر چھڑکائو‘‘ کی رسم تدفین کا لازمی حصہ بن چکی تھی۔اس رسم کا ’’بیک گرائونڈ‘‘ جو بھی تھا ،بہرحال اب یہ ایک کامیاب کوشش تھی کہ کوئی مُردہ کم از کم ذہنی سکون کے ساتھ قبر
تک نہ پہنچے۔قبر کا حال تو اللہ پاک کو معلوم ہے لیکن! !بظاہر اُس بیچارے مُردے کا عذاب کفن اُوڑھتے ساتھ ہی شروع ہو جاتا۔انہی بچپن کے دنوں کی بات ہے کہ ہم ایک دو سطری وصّیت لکھ کر ہمہ وقت اپنی جیب میں رکھتے کہ، ’’موت فوت بندے کے ساتھ ہے ۔ہماری وصّیت ہے کہ بعد از وفات ہمیں یہ عطر نہ لگایا جائے ‘‘۔
اب جب وہی عطر برسوں بعد ان بابا جی کو مسجد میں لگاتے دیکھا تو ہمارا ذہنی کرب گویا دوبارہ شروع ہو گیا۔انہیں دیکھتے ہی ذہن میں ایک فلم چلنا شروع ہو جاتی،،کفن میں لپٹی میّت نظر آتی اور لاشعورسے ’’کلمہ ٗشہادت‘‘ کی آوازیں آنا شروع ہو جاتیں۔ لاچار! وہ محلّہ چھوڑا تب کہیں قرار آیا۔
مساجد میں سمری ٹرائل
مساجد میں آجکل قابلِ ذکر تعدادایسے حضرات کی بھی ہے جو آپ کے طریقہٗ نمازپر تنقید کریں گے اور پھر ’’ سمری ٹرائل‘‘ کرتے ہوئے فیصلہ یا فتوٰی دیں گے کہ ، ’’جناب! آپ کی نمازقبول نہیں ہوئی، (گویا انھوں نے خود ہی کرنا تھی) لہٰذا اپنی نماز لوٹائیے۔‘‘یہ اعلان کرتے ہوئے ان کا زعمِ تقویٰ اور خبطِ عظمت دیدنی ہوتا ہے۔یا پھر فرمائیں گے کہ آپ کی نماز ’مکروہ‘ ہو گئی ہے۔ اور لفظ ’’مکروہ‘‘کی ادائی کے دوران ایسی شکل بنائیں گے گویا کراہت نماز میں نہیں بلکہ آپ کی ذات میں
ہے۔یہ حضرات اکثر بھول جاتے ہیں کہ اگر اصلاح بھی مقصود ہو تومستحسن اندازمیںہونی چاہیے۔ عزّتِ نفس کا خیال رکھنا اوردلآزاری سے بچنا بھی ضروری ہے۔
ہماری مسجد میں آجکل ’’سمری ٹرائل‘‘ کی اہم سیٹ پرمحترم جناب بزمی صاحب المعروف ’’چاچا چکری‘‘ براجمان ہیں ۔یہ حضرت ایک سرکاری دفتر میں کسی اہم عہدے پر تعینات رہے۔ اسی سال ریٹائر ہوئے ہیں۔ مزاج بے حد چڑچڑا پایا ہے۔ دوران ِ ملازمت پرلے درجے کے بد اخلاق،مُنہ پھٹ اور انتہائی بد لحاظ مشہور تھے
لیکن ’’ با اصول ‘‘ بھی تھے ۔حتیٰ کہ رشوت کے بھی ’’اُصول‘‘ مقرّر کر رکھے تھے،یعنی جو ایک دفعہ طے ہو گئی اس سے آنہ برابر اُوپر نیچے نہیں کرتے تھے۔ حرام ہے جو گھر میں کبھی حلال آنے پایا ہو ،اور ساری زندگی اسی ’اصول‘ پر کاربند رہے۔ ان کا نا م ’’چکری ‘‘ پڑنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ دفتر میں ان کا سائل اگر ان کی ’’فرمائش‘‘ پوری نہ کرتا تو اُسے دفتر کے بے تحاشا چکر لگانے پڑتے بلکہ وہ بے چارہ اس قدر پھیرے لگاتا کہ بقول قاسمیؔ صاحب وہ خود ’’بھائی پھیرو‘‘ بن جاتا۔لہٰذا لوگوں نے انہیں ’’چاچا چکری ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔
یہ نمازوں پہ تنقید کرنے والے حضرات پُرغرور انداز میں اپنا فیصلہ صادر کرتے ہیںاور اکثر طنز کے ساتھ!بھلے خود ہی غلط ہوں !!چند دن پہلے ہم مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ساتھ کھڑے ایک صاحب ( جو بزمی۔۔ؔ ثانی کا ’مقام‘ رکھتے ہیں) نے بڑی عُجلت سے سلام پھیرااورہماری طرف تقریباً گھورتے ہوئے فرمانے لگے، ’’بھئی!آپ کی نماز مکروہ ہو گئی ہے،بہتر ہے !لو ٹا لیجیے‘‘۔ آواز میں بلا کی رعونت تھی ۔صاحب! ان حضرات کے کہنے پر نمازیں لوٹاتے ہمیں اک عُمر گزر گئی ہے۔اس دن پتا نہیں کیا ہوا،ہم نے خاطر جمع کی اور لبوں پہ ہلکی مسکراہٹ لاتے ہوئے ان صاحب کو جواب دیا، ’’جناب!چھوڑئیے! ہمیں معلوم ہے کیوں مکروہ ہوئی ہے ہماری نماز‘‘۔فرمایا، ’’کیوں؟‘‘ عرض کیا۔’’جناب!ہم آپ کے سا تھ جو کھڑے تھے‘‘۔ ہم نے اتنا کہا اور اگلی نماز شروع کر دی۔
حکیم مومن خان مومنؔکا اک شعر ایک عرصے تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔معلوم نہیں ہورہا تھا کہ اس شعر کی نوبت کیوں کر پیش آئی۔لیکن اب سمجھ آنے لگا ہے کہ اس باکمال رومانوی شاعر کو بھی یقینا کچھ ایسے ہی حالات پیش آئے ہوں گے،تبھی تو اُنہیں کہنا پڑا کہ:
کل شبِ جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ
رات کاٹی خدا خدا کر کے!!
 
عبدالقیوم چوہدری صاحب، آپ بتانا پسند کریں گے کہ کیا سبق ہے اس میں ؟
اشفاق احمد صاحب مرحوم و مغفور کا ایک فقرہ لکھ دیتا ہوں
ہم لوگوں کی ، اوروں کے چھوٹے چھوٹےعیوب پر نظر ہے ۔ اور اپنے بڑے بڑے عیوب دکھائی نہیں دیتے ۔ اپنے بدن پر سانپ بچھو لٹک رہے ہیں ، ان کی پرواہ نہیں ۔ اور ہم دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر میں ہیں ۔
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اشفاق احمد صاحب مرحوم و مغفور کا ایک فقرہ لکھ دیتا ہوں
ہم لوگوں کی ، اوروں کے چھوٹے چھوٹےعیوب پر نظر ہے ۔ اور اپنے بڑے بڑے عیوب دکھائی نہیں دیتے ۔ اپنے بدن پر سانپ بچھو لٹک رہے ہیں ، ان کی پرواہ نہیں ۔ اور ہم دوسروں کی مکھیاں اڑانے کی فکر میں ہیں ۔
 
Top