یہ بیچ آنکھ جو دریاے غم اتر آیا

میاں وقاص

محفلین
یہ بیچ آنکھ جو دریاے غم اتر آیا
عذاب روح کا کچھ کم سے کم اتر آیا

ذرا سی دور ہویں جو حدود_میخانہ
وہ ایک نشہ پس_جام و جم اتر آیا

بدن رہا ہے مزاحم ضرور، بالآخر
نحیف سینے میں تیر_ستم اتر آیا

رکا ہوا تھا جو نوک_زباں پہ برسوں سے
وہ ایک لفظ بہ نوک_قلم اتر آیا

دکھائی دیتے ہیں پلکوں پہ شبنمی قطرے
ذرا سا قرض تو اے چشم_نم! اتر آیا

ہزار شکر کہ ناکامیء مسیحا سے
زمیں پہ بوجھ تھا میرا قدم، اتر آیا

غزل یہ صفحہء قرطاس پر نہیں شاہین
کوئی صحیفہ، خدا کی قسم، اتر آیا

حافظ اقبال شاہین
 
Top