یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے!

ام اویس

محفلین
لباس
ملکہ نے شہزادے کو اپنے سائے کا عادی بنا لیا تھا لیکن شہزادے کو لباس کی ضرورت تھی ۔ گھر گھر کی تلاش اور دیکھ بھال کے بعد ملکہ نے اس کے لیے بہت خوبصورت ، نرم و ملائم لباس کا انتخاب کیا ۔ لباس تیار کرنے والا ملکہ کے فریب سے آگاہ ہونے کے باوجود دھوکا کھا گیا
اور اپنا سب سے قیمتی ، نفیس اور نرم و نازک لباس اس کے حوالے کردیا ۔
شہزادے کو لباس تو مل گیا مگر اپنی مرضی سے زیب تن کرنے کا اختیار نہ ملا ۔ ملکہ اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز تھی ۔ اس کے اقتدار کا سورج اپنے عروج پر تھا ۔
لباس کو صبر سے اس سورج کے غروب ہونے تک شہزادے کے تن پر سجنے کی کوشش کرنا تھی اور ملکہ کی نگاہ میں باعزت ہونے کی جدوجہد کرنا تھی ۔
ملکہ کو اپنے سائے پر بے انتہا غرور تھا ۔ آج تک وہ کسی کو خاطر میں نہ لائی تھی وہ خود کو ظل الہی سمجھتی تھی خود اپنی بے لباسی کو خاطر میں نہ لاتی بلکہ اسے بھی طاقت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا اسے یہ فکر تھی کہ شہزادہ لباس زیب تن کرتے ہی اس کے سائے سے بےنیاز ہوجائے گا اور اس کی طاقت وغرورخاک میں مل جائے گی ۔ وہ ایک ضدی اور خود پسند عورت تھی چنانچہ ہر وقت اس لباس کو۔ تنقید کا نشانہ بناتی شہزادے کو اس کے نادیدہ سوراخ دکھاتی اور اسے بدرنگ بدبودار ثابت کرنے کی کوشش میں لگی رہتی
شہزادے کواپنے سائے میں رکھنے کے لیے ابتداء سے ہی ملکہ نے اسے اپنی محبت ، فرمانبرداری اور بے جا اطاعت کے پرفریب جال میں پھنسا رکھا تھا ۔ وہ اس کی آنکھ تھی جس سے وہ دیکھتا تھا اس کا کان تھی جس سے وہ سنتا تھا اور اس کاپاؤں تھی جس سے وہ چلتا تھا ۔ اس کی آنکھوں پر ملکہ کی محبت کی ایسی پٹی بندھی تھی جس کو کھولنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ ملکہ نے اس کے سوچنے ، سمجھنے اور کر گزرنے کی تمام صلاحیتوں کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا ۔
لباس کی مجال نہ تھی کہ وہ شہزادے کی آنکھوں سے پٹی ہٹا کر اسے حقیقت کی دنیا کا چہرہ دکھا سکتا ۔ اس کے جلووں کی رعنائیوں سے جو پھول کھلنے تھے ان کی خوشبو سے آشنا کروا سکتا
شہزادہ اپنے لباس سے اٹھنے والی نرم و مدھم خوشبو بھی ملکہ کے حضور پیش کر دیتا پل بھر میں ملکہ خوشبو کو بدبو کے ببھوکے میں بدل دیتی جو اسقدرزہریلا ہوتا کہ لباس اس کے اثر سے نیلا پڑ جاتا ۔
آہستہ آہستہ لباس کا رنگ روپ اجڑنے لگا وہ ویسا ہی خستہ و بد رنگ دکھائی دینے لگا جیسا ملکہ چاہتی تھی ۔ رنگ روپ اجڑنے کے ساتھ اس کے خدوخال بھی بگڑنے لگے اس پر منقش پھول بوٹے مرجھانے لگے ۔ ریشم کی نرمی غم کی کھردراہٹ میں بدلنے لگی جب بھی حالات کی تلخی سے اس پر جڑا کوئی پھول گر جاتا ملکہ اس مردہ پھول کو احتیاط سے اٹھا کر شہزادے کی یادوں کے طاق میں سجا دیتی اور زہریلی ہوا پھونک پھونک کر شعلہ بنا دیتی ایسا شعلہ جولباس کا دامن جلاتا ۔ جلتا بلتا لباس جب تکلیف سے پھڑپھڑاتا تو شعلے بھڑکتی آگ بن جاتے جو خود اپنے آپ کو بھی جلاتے اور شہزادے کو بھی جھلساتے ۔ ملکہ لباس کو دور جھٹک کر شہزادے کو اپنے سائے میں سمیٹ لیتی ۔ کبھی کبھی شہزادے کی آنکھوں کی پٹی ڈھیلی ہونے لگتی اور اسے لباس کا سنہرا نرم اور خوبصورت رنگ جھلک دکھاتا لیکن ملکہ اپنی مکاریوں سے شہزادے کو اندھا کردیتی ۔ شہزادہ اس اندھیر نگری کا ایسا عادی ہوا کہ سوچ کے روزن سے امید کی کسی کرن کوبھی داخل نہ ہونے دیتا ۔
لباس شہزادے کی بے اعتنائیوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے بوسیدہ ہوتا گیا ۔ اسے توجہ چاہیے تھی اسے رفو کی ضرورت تھی اسے حفاظت کی ضرورت تھی اسے محبت کی نرم گرم پھوار کی ضرورت تھی لیکن شہزادہ اس سے بالکل بے نیاز ہوکر ملکہ کے سائے کے سرابوں میں سکون کی تلاش میں بھٹک رہا تھا ۔ لباس ایک طرف پڑا لوگوں کی حقارت اور ٹھوکروں کا نشانہ بن رہا تھا تند و ترش طعنے اس کو چھلنی کر رہے تھے لیکن شہزادہ اس سے بالکل بے خبر تھا اسے احساس نہ تھا کہ زندگی کی کڑی دھوپ میں سایہ ہمیشہ ساتھ نہیں دیتا ۔ سرد گرم موسموں کی سختیاں سہنے کے لیے لباس کی بھی ضرورت ہوتی ہے جانے اسے کب یہ بات سمجھ آئے گی ۔
 
Top