یہ اور بات کہ رستہ بدل بھی سکتا تھا

اداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا تو مرے ساتھ چل بھی سکتا تھا

وہ شخص تو نے جسے چھوڑنے کی جلدی کی
ترے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا

وہ جلدباز خفا ہو کے چل دیا ورنہ
تنازعوں کا کوئی حل نکل بھی سکتا تھا

اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دیا ورنہ
مری دُعا سے وہ پتھر پگھل بھی سکتا تھا

تمام عمر ترا منتظر رہا محسن
یہ اور بات کہ رستہ بدل بھی سکتا تھا
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top