یہی خیال ہے جس کے سبب اڑان میں ہوں
کہ میں پکڑ میں ہوں رب کی اور امتحان میں ہوں
کسی بھی شخص میں دیکھی نہیں بدی ہی فقط
میں گو برا ہوں پہ اچھوں کے خاندان میں ہوں
یوں میرے خوفِ خدا نے ہے مجھ کو رکھا ہوا
زمیں پہ بیٹھ کے لگتا ہے آسمان میں ہوں
یہ چاہتا ہوں کہ پوری ہوں خواہشیں یک دم
یہ کس خیال میں پھرتا ہوں کس گمان میں ہوں
ہو جس طرح سے مصور کی، شاہ کار ہی چھاپ
یوں اک قصیدہ ہوں، اپنے خدا کی شان میں ہوں
ہے مجھ کو جب سے محبت کا عارضہ لاحق
میں اور ہی کسی دنیا کسی جہان میں ہوں
اگرچہ روند کے گزرا ہے قافلہ غم کا
مگر ہے شکر کہ اب تک میں تھوڑی جان میں ہوں