یہاں جتنے بھی لمحے جا رہے ہیں۔اسلم کولسری

یہاں جتنے بھی لمحے جا رہے ہیں
بدن کی راکھ بنتے جا رہے ہیں
چمکتے جا رہے ہیں سنگ ریزے
مگر انسان بُجھتے جا رہے ہیں
نہ جانے کس لیے لگتا ہے مجھ کو
کہ شہروں سے پرندے جا رہے ہیں
لگی ہے بھیڑ سی راہوں میں، لیکن
سبھی راہی اکیلے جا رہے ہیں
وفا باقی نہیں یا پھر وفا کے
معانی ہی بدلتے جا رہے ہیں
اُڑی جاتی ہے کیوں پھولوں کی رنگت
اگر مکتب کو بچے جا رہے ہیں
محبت کی مہک مٹی سے اسلمؔ
فلک سے چاند تارے جا رہے ہیں

اسلم کولسری
 
Top