یکم مئی اور پاکستانی مزدور

تاریخ: یکم مئی، 2017
29vc5fl.jpg

یکم مئی اور پاکستانی مزدور
تحریر: سید انور محمود
9bae7r.jpg
پاکستان میں یکم مئی اور اس کی تاریخ کو متعارف کرانے کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتاہے، ایوب خان کے زمانے میں پاکستان میں 22 سرمایہ داروں کا ذکر ہوتا تھا ان میں ایک ایوب خان خود تھا جو گندھارا انڈسٹریز کا مالک تھا۔ ایوب خان کی کابینہ سے علیدہ ہونے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹونے 30 نومبر1967 کو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، پیپلز پارٹی کے چار رہنما اصول منظور کیے گئے جو پارٹی کا منشور بھی کہلائے:1۔ اسلام ہمارا دین ہے،2۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے،3۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے، اور4۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔1968میں ایوب خان کے خلاف کامیاب تحریک چلی تو سارئے پاکستان کے مزدوروں نے ملکر ایک نعرہ لگایا کہ ’’سرمایہ داری مردہ باد‘‘۔بھٹو نے’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا دلکش نعرہ لگاکر پورئے پاکستان کے مزدوروں کو اپنے ساتھ ملالیا، لیکن افسوس وہ مزدوروں کی حالت تو کیا بدلتے اُنکے دور میں صنعتوں، بنکوں، لایف انشورنس اور دوسرئے زرایع پیداوار حکومتی تحویل میں لینے سے مزدوروں کو ہی نقصان پہنچا۔ بعد میں دو مرتبہ اُنکی بیٹی بینظیر بھٹو اورایک مرتبہ اُنکے داماد آصف علی زرداری بھی ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا دلکش نعرہ لگاکر برسراقتدار رہے، مگر مزدوروں کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گی۔ بھٹو کے بعد ضیاءالحق سے آج نواز شریف تک ہرحکومت ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور ضرور مناتی ہے، سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے اور مختلف پروگرام منعقد کرکے شکاگو کے 1886 کے مزدوروں کو یاد کرلیا جاتا ہے۔

یکم مئی عام طور پر دنیا میں مزدوروں کی کامیابی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسکو "یوم مزدور" بھی کہتے ہیں۔ جہاں تک ترقی یافتہ ممالک کی بات ہے وہاں یقینا مزدوروں کےلیے بنیادی سہولتوں میں کافی آسانیاں ہویں ہیں، صحت اور تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اُس میں چھوٹے یا بڑئے کا کوئی فرق نہیں۔مزدوروں کو جو بنیادی اجرت دی جاتی ہے اُس سے اُنکا اور اُنکے بچوں کا گذارا آرام سے ہوجاتا ہے۔پاکستان میں حکومتی سطح پر یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے، حکومتی اور عوامی سطح پر بڑے بڑے اجلاس ہوتے ہیں اور سمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کا فائدہ مزدوروں کو ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ اُس دن وزیراعظم یا صدر سے لے کر محلے کے لیڈر تک ہر ایک اپنے مزدور بھائی کی پریشانیوں کےغم ڈوبا ہوا ہوتا ہے، حکومتی سطع پر بہت سارئے وعدئے کیے جاتے ہیں لیکن اگلے سال یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوتی ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کی باگ دوڑ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔ نواز شریف ملک کے مزدوروں کے مسائل کے بارئے میں شاید جانتے بھی نہیں ہیں، وہ خود ایک بدعنوان سرمایہ دار ہیں جو ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں پاکستان سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی وجہ سے ان پر قائم ایک مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ان کو بدعنوان قرار دیا ہے اور فیصلہ سنانے والے پانچ ججوں میں سے دو نے ان کو وزیراعظم کی حیثیت سے ہٹانے کو بھی کہا ہے، لیکن ایک ناجائز سرمایہ دار وزیراعظم کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسے وزیراعظم کو مزدوروں کے مسائل سے کیا دلچسپی ہوگی، حکومت کو مزدوروں کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لہذاآج مزدور دشمنی میں نجکاری، چھانٹیوں اور برطرفیاں عام بات ہے۔مزدور یونینوں کو ختم کرکےصنعتوں میں ٹھیکیداری نظام رائج کردیا گیا ہے جس کی وجہ سےآج پاکستان میں مزدورتحریک بدترین بحران کا شکار ہے۔ لاکھوں مزدوروں کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے جوآج انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور نجی صنعتوں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں تک بارہ سے سولہ گھنٹے تک روزانہ کام لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں حکومت یا تو سرمایہ دار کی ہوتی ہے یا پھر جاگیردار کی اور یہ دونوں طبقے اپنے پاس کام کرنے والوں کو اپنا غلام تصورکرتے ہیں۔ ایک عالمی مطالعے کے مطابق غلامی جیسے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور افراد کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جو باعث شرم ہے۔جدید غلامی کی اصطلاح استحصال کی ایسی صورتحال کے لیے استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی شخص دھمکیوں، تشدد، جبر، طاقت کے غلط استعمال یا دھوکہ دہی کے باعث محنت سے انکار نہیں کر سکتا یا کام چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ یہ پاکستانی معاشرئے کا سب سے پسا ہوا طبقہ ہے۔ جدید غلامی کی صورتوں میں قرض کے بدلے مفت غلامی، بچوں کی غلامی، گھریلو مشقت اور جبری مشقت شامل ہیں، جہاں غلامی کے شکار افراد کو تشدد یا ڈرا دھمکا کر کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔جبری مشقت کے خلاف طویل عرصہ سے سرگرم بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کی سیکرٹری جنرل سیدہ غلام فاطمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے غیررسمی شعبے اور بہت سی صنعتوں میں محنت کشوں کو ان کی محنت کی کم سے کم اجرت بھی ادا نہیں کی جا رہی۔غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے، گھروں میں کام کرنے والی عورتیں اور بچے، قالین سازی کی صنعت جو اب گھریلو صنعت بن گئی ہے، طبی آلات بنانے کی صنعت میں میں کم سے کم اجرت ادا کی جارہی ہے۔بقول غلام فاطمہ کہ ’’دنیا میں لوگ روزمرہ اخراجات کے مطابق اجرت کا مطالبہ کررہے ہیں اور پاکستان میں کم سے کم اجرت سے بھی آدھی اجرت ملتی ہے۔پاکستان میں مزدوریکم مئی کو بھی کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ سرمایہ داری کے اس دور میں روزگار کی کوئی ضمانت نہیں ہے، کسی بھی مزدور کو کسی بھی وقت نوکری سے نکالا جاسکتا ہے۔ حکمران آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے ایما پر نجکاری اور ٹھیکیداری جیسی پالیسیوں کو زیادہ شدت سے مسلط کرتے جارہے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو محنت کشوں کے حقوق کی آواز بلند کررہی ہو یا ان کے مفادات کی ترجمانی کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ملکیت ہیں یہ ان کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔ محنت کشوں کی تحریکیں آج ملک بھر میں بکھری ہوئی ہیں لیکن نظریاتی بنیادوں کے فقدان اور سیاسی پلیٹ فارم نہ ہونے کے باعث وہ یکجا نہیں ہو پارہی۔ہر سال پاکستان میں یکم مئی محنت کشوں سےسرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام سے بغاوت کی امید کرتا ہے۔ جب تک ملک سے سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام ختم نہیں ہوتا تب تک طبقاتی لڑائی جاری رہے گئ، اس ظلم و استحصال کے نظام کو ختم کرنا لازمی ہےجس میں محنت کشوں کے خون اور پسینے سے پیدا کی گئی دولت کو سرمایہ دار لوٹ لیتے ہیں، ساری زندگی دن رات محنت کرنے کے بعد بھی محنت کش دو وقت کی روٹی پوری نہیں کرپاتا جبکہ نواز شریف اور زرداری جیسے لوگ لوٹی ہوئی دولت کو ملک سے باہر لے جاکر سے عیاشی کرتے ہیں۔ایسے میں یکم مئی محنت کشوں سے سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کے لیے تجدید عہد کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ سفر جس کا آغاز شکاگو کے شہیدوں نے کیا تھا وہ ابھی تک ادھورا ہے۔

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اِک دیس نہیں اِک کھیت نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے
 
Top