یونہی کیا دل کو بہلانا پڑے گا

عظیم

محفلین


غزل


یونہی کیا دل کو بہلانا پڑے گا
کسی کا گن سدا گانا پڑے گا

یہ دل مانا نہیں اب تک کسی کی
اسے اب خود ہی سمجھانا پڑے گا

نہ چاہیں بھی تو اس دنیا سے ہم کو
کہیں پر کوچ کر جانا پڑے گا

وفا کی راہ آساں کچھ نہیں ہے
قدم اٹھنے پہ غم کھانا پڑے گا

ہزاروں زخم سینے میں چھپا کر
ہمیشہ جگ میں مسکانا پڑے گا

وہی الفت کہ جس پر مان کیجے
نہ جانے اس پہ پچھتانا پڑے گا

دل و جاں کا گلستاں ایک گل کی
مہک سے خوب مہکانا پڑے گا

جنوں لے آیا اس کے در پہ لیکن
مجھے اب ہوش میں آنا پڑے گا

نہ چھیڑو شہر کے لوگو تم اس کو
گلے بے خود یہ دیوانہ پڑے گا

عظیم اس زندگی میں شغل کوئی
تمہیں بھی دوست اپنانا پڑے گا


 
Top