یوم اقبال پرچھٹی کے بجائے عظیم مفکر کی سوچ کو اجاگر کریں،وزیراعظم

جاسم محمد

محفلین
یوم اقبال پرچھٹی کے بجائے عظیم مفکر کی سوچ کو اجاگر کریں،وزیراعظم
November 9, 2018
5832081abcec2.jpg


یوم اقبال پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر ہے، یوم اقبال پر عام تعطیل کے بجائے عظیم مفکر کی سوچ کو اجاگر کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان نسل کو علامہ اقبال کی سوچ سے روشناس کرایا جائے۔

یوم اقبال پر قوم کے نام اپنے پیغام میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال ؒ نے مسلمانانِ برصغیر کو آزادی کا راستہ دکھایا۔ پاکستان علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر ہے اور اقبال ؒ کی سوچ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

یوم اقبال پر عام تعطیل کے بجائے عظیم مفکر کی سوچ کو اجاگر کیا جائے اور نوجوان نسل کو علامہ اقبال کی سوچ سے روشناس کرایا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اقبال کی چھٹی۔۔یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
آصف محمود
asif-Mehmood.jpg


زیادہ وقت نہیں گزرا ، ابھی کل کی بات ہے ۔ نواز شریف حکومت نے ’یوم اقبالؒ‘ کی چھٹی ختم کرنے کا اعلان کیا تو کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اعلان کیا کہ کے پی کے میں یوم اقبال ؒ پر عام تعطیل ہو گی۔

خود عمران خان بروئے کار آئے اور انہوں نے یکے بعد دیگرے تین ٹویٹ کر کے قوم کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے مرکز کا فیصلہ رد کرتے ہوئے یوم اقبال ؒ پر تعطیل کا اعلان کیوں کیا۔ پہلے ٹویٹ میں انہوں نے اس تاریخی فیصلے کا کریڈٹ وزیر اعلی کی بجائے خود کو دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ کہ وزیر اعلی نے اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ یہ تو انہوں نے پرویز خٹک سے درخواست کی تھی کہ مرکزی حکومت کا فیصلہ تسلیم نہ کیا جائے اور صوبے میں عام تعطیل کی جائے۔

دوسرے ٹویٹ میں عمرن خان نے اپنے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ میں اگر چہ بہت زیادہ چھٹیوں کے حق میں نہیں ہوں لیکن یوم اقبال کا معاملہ مختلف ہے اور اس دن چھٹی ضروری ہے کیونکہ اقبال کی فکر میں تو نظریہ پاکستان مجسم ہے۔تیسرے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا نظریے سے محروم قومیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔

کل ٹویٹ کر کے یوم اقبال ؒ پر تعطیل کی ضرورت بیان فرمائی جا رہی تھی اور آج جب اقتدار ہاتھ آیا ہے تو یوم اقبال ؒ پر تعطیل نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ احسن اقبال کے بعد اب شہریار آفریدی پر بھی اچانک ’ کام کام اور بس کام ‘کی حقانیت آشکار ہو گئی ہو بات کہیں پیچیدہ ہے۔

یہ نئے پاکستان میں بھی اقبالؒ کی چھٹی کا اعلان ہے اور صاف نظر آ رہا ہے اس فیصلے کی جڑیں داخل میں نہیں خارج میں ہیں۔ قومی مشاہیر کے دن منانے کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔آپ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس دن اور اس فکر سے ہماری وابستگی کا عالم کیا ہے۔ساری دنیا اپنے مشاہیر کے دن مناتی ہے۔

ہنگری میں 20 اگست کوسینٹ سٹیفن ڈے منایا جاتا ہے اور تعطیل ہوتی ہے ،آئرلینڈمیں 17 مارچ کوسینٹ پیٹرک ڈے پر تعطیل ہوتی ہے،یہ دن سکاٹ لینڈ اور ویلز میں بھی منایا جاتا ہے اور چھٹی ہوتی ہے،سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے سینٹ اینڈریو ڈے منانے اور چھٹی کرنے کا بل بھی پاس کیا ہے،جاپان میں شہنشاہ اکی ہیٹو کے یوم پیدائش پر23 دسمبر کو تعطیل ہوتی ہے،ہر جنوری کی تیسرے سوموار کو امریکہ میں مارٹن لوتھر ڈے منایا جاتا ہے اور عام تعطیل ہوتی ہے۔

اٹلی،آسٹریا،سپین،جرمنی اور فرانس میں 26 دسمبر کو سینٹ سٹیفن ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔سپین میں 24 جون کو سینٹ جونز ڈے اور 19 مارچ کو سینٹ جوزف ڈے پر چھٹی ہوتی ہے۔بلجیم میں تو سینٹ ویلنٹائن ڈے پر بھی چھٹی ہوتی ہے،بھارت میں 2 اکتوبر کو گاندھی جی کے یومِ پیدائش پر تعطیل ہوتی ہے۔

کامن ویلتھ کے کئی ممالک میں ابھی تک ’ کوئینز برتھ ڈے‘ منایا جاتا ہے اور چھٹی کی جاتی ہے۔جب یہ سب اپنے اپنے دن منا سکتے ہیں تو ہم پاکستانی یہ دن کیوں نہیں منا سکتے؟ کام کی برکات کے اگر ہمارے حکمران اتنے ہی قائل ہیں تو ذرا یکم مئی کی یوم مزدوراں کی چھٹی بھی ختم کر کے دکھائیں۔

شکاگو میں ایک واقعہ ہوا۔ ہمارا اس سے کیا لینا دینا ہے۔ہمارے مزدوروں کو تو معلوم بھی نہیں اس دن چھٹی کیوں ہوتی ہے۔ مزدور نے تو کبھی اس دن چھٹی کی ہی نہیں کیونکہ اسے گھر کا چولہا چلانے کے لیے روز دیہاڑی کی تلاش ہوتی ہے۔غریب مزدور کے نام پر چھٹی تو کوئی کرتا ہے ۔اور کیوں کرتا ہے؟ اس لیے کہ مغرب نے یہ طے کر رکھا ہے اور ہم نے حکم بجا لانا ہے۔

ہم بقائے باہمی کی باتیں بہت سنتے ہیں لیکن عملا صورت حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے ایام تو منائے جاتے ہیں لیکن اپنے اکابرین اور مشاہیر کے ایام نہیں منائے جا رہے۔ شاید غالب تہذیب اپنے علاوہ کسی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ شاید اسی کا نام گلوبلائزیشن ہے۔

عیدالفطر اور عید الاضحی پر بمشکل دو سے تین چھٹیاں کی جاتی ہیں مگر مغرب کی پیروی میں کرسمس پر دسمبر کا آخری عشرہ تعطیلات کا ہوتا ہے۔ چھٹیاں اصل میں کرسمس کی ہوتی ہیں لیکن زندہ اور پائندہ قوم کو بتایا جاتا ہے یہ سردیوں کی تعطیلات ہیں۔یوم اقبالؒ پر پارلیمان میں کام کام اور کام کے فضائل بیان کرنے والوں نے کبھی پارلیمان میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ سردیاں تو جنوری میں شدت اختیار کرتی ہیں یہ سردیوں کی چھٹیاں آپ دسمبر میں کیوں کرتے ہیں۔

یہ کیسی سردی ہے جو برصغیر والوں کو صدیوں سے کبھی دسمبر میں نہیں محسوس ہوئی لیکن انگریز کے آنے اور پھر چلے جانے کے باوجود ابھی تک پورا برصغیر دسمبر کے آخری عشرے میں سردیوں کی چھٹیاں کرتا ہے۔

عمران خان کا اگر فلسفہ حیات یہی ہوتا کہ چھٹیاں نہیں ہونی چاہئیں تو پھر معاملے کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔ اگر پھر بھی ان پر تنقید ہی کی جاتی کیونکہ یوم اقبال ؒ کا معاملہ اور ہے۔لیکن یہاں تو عمران خان خود بیان فرما چکے کہ یوم اقبال کی تعطیل کیوں ضروری ہے۔اب اقتدار ملنے کے بعد ان کی فکر میں یہ اچانک تبدیلی کیسے آ گئی؟

یہ وہ سوال ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں۔صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی فکری بنیادیں کھود ڈالنے کی کوشش ہے۔اقبال ؒ ہماری فکر کا استعارہ ہے۔ قائد اعظم ؒ کی گیارہ اگست کی تقریر سے فکری بد دیانتی سے کام لیتے ہوئے سیکولرزم برآمد کر لیا گیا ، اقبال ؒ کے ساتھ تو ایسی کوئی واردات بھی ممکن نہیں۔تو کیا اب طے کر لیا گیا ہے کہ اجتماعی حافظے سے اقبال ؒ کو محو کر دیا جائے ؟

آخر کون سی مجبوری ہے کہ حکمران بنتے ہی عمران خان اپنے ہی تصورات اور اپنی ہی فکر کو پامال کرنے پر تل گئے ۔

کل جناب احسن اقبال قوم کو درس دیا کرتے تھے کہ چھٹی کرنا اچھی بات نہیں اور اب برادرم شہر یار آفریدی قوم کی فکری رہنمائی فرما رہے ہیں کہ نئے پاکستان میں ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے کام ہوتا ہے، چھٹی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے، روز پارلیمان میں فضول باتوں پر باہم الجھنے والی دو سیاسی جماعتوں میں اتفاق بھی ہوا تو کس بات پر۔۔اقبال ہی کی یاد آ رہی ہے: ’’ یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف‘‘

بشکریہ نائنٹی ٹو
 

جاسم محمد

محفلین
سلسلہ خود اذیتیہ و ملامتیہ میں بیعت مبارک!
جہاں لیگی اور جیالے اپنے قائدین کی کرپشن، مالی خردبرد کا بڑی فراخدلی کے ساتھ دفاع کرتے ہیں۔وہاں انصافیوں کا اپنی قیادت کے 'یوٹرنز' پر ایمان تو کچھ بھی نہیں۔ یہاں فرق یہ ہے کہ کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار سے پورے ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ جبکہ سیاسی قیادت کے یوٹرنز سے صرف پارٹی کی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ ہم ملک و قوم کی خاطر پارٹی کی قربانی دے سکتے ہیں۔ لیکن پارٹی کی بقا کیلئے ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتے۔
یہی فرق ہے جو انصافیوں کو دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے۔ جس دن انصافی لیڈر شپ نے دیگر جماعتوں کی طرح لوٹ مار شروع کر دی۔ اسی دن اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
جہاں لیگی اور جیالے اپنے قائدین کی کرپشن، مالی خردبرد کا بڑی فراخدلی کے ساتھ دفاع کرتے ہیں۔وہاں انصافیوں کا اپنی قیادت کے 'یوٹرنز' پر ایمان تو کچھ بھی نہیں۔ یہاں فرق یہ ہے کہ کرپشن اور قومی خزانے کی لوٹ مار سے پورے ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ جبکہ سیاسی قیادت کے یوٹرنز سے صرف پارٹی کی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ ہم ملک و قوم کی خاطر پارٹی کی قربانی دے سکتے ہیں۔ لیکن پارٹی کی بقا کیلئے ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر نہیں لگا سکتے۔
یہی فرق ہے جو انصافیوں کو دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز بناتی ہے۔ جس دن انصافی لیڈر شپ نے دیگر جماعتوں کی طرح لوٹ مار شروع کر دی۔ اسی دن اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
سبھی کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ ہر پارٹی کے اندر تنقید کرنے والے بھی موجود ہوتے ہیں؛ تعریف کرنے والے بھی۔ انصافیوں کے امتیازی اوصاف صرف آپ سے ہی سننے کو ملتے ہیں۔ :)
 
Top