مبارکباد یومِ محبت (ویلنٹائن ڈے) مبارک

فاتح

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٖقابلیت کی قائل ھوں رعایتی نمبروں کی کبھی ضرورت نہیں پڑی وہ رعایتی نمبر اپنے گرو جی کو دے دیں محنت تو انکی ھے خود کو مفتوح محبت سے منکر محبت ثابت کرنے میں
گویا آپ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ ہماری قائل ہیں۔ ارے بھئی من آنم کہ دانم لیکن بہرحال شکریہ شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
ارے ظفری بھائی! واہ آپ کے دیدار ہو گئے اس دھاگے کی نسبت سے اور آپ کی لکھی ہوئی خوبصورت اور ذہن کشا تحریر پڑھنے کو مل گئی۔ بہت شکریہ۔ کہیے کہاں غائب ہیں قبلہ؟
 

ظفری

لائبریرین
برخوردار ۔۔۔۔ بس حسبِ معمول ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ دستخط نہیں دیکھے ۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے ۔۔۔۔۔ !
 

فاتح

لائبریرین
فاتح کو اس وقت چھیڑنا قطعی مناسب نہیں کیونکہ صائمہ شاہ پر کرم کرتے کرتے رخ میری طرف اور اب کوئی نیا ٹارگٹ ڈھونڈا جا رہا ہے۔

اہل محبت سے دو سال سے خار کھائے بیٹھا ہے فاتح۔
چلو اس اس دھاگے کےباعث دوستوں کے شکوے تو بر سرِ زبان آئے لیکن سچ بتاؤ کہ میرے کس قول یا فعل سے ایسا لگا کہ میں تم سے دو سال سے خار کھائے بیٹھا ہوں؟

ویسے ہم نے اس برس کے آغاز میں ایک شعر کہا تھا:
 

فاتح

لائبریرین
برخوردار ۔۔۔ ۔ بس حسبِ معمول ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ دستخط نہیں دیکھے ۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے ۔۔۔ ۔۔ !
جی یقیناً کیوں کہ میری لینڈ میں دریا بھی تو بے شمار ہیں۔۔۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔۔۔ ویسے کیا ان دنوں بحریہ کی ملازمت اختیار کر لی ہے کہ دریاؤں کا سامنا درپیش ہے؟
 

صائمہ شاہ

محفلین
پہلی بات تو یہ کہ گرو کا لفظ واوین میں ہے اس لیے اسے طنزا پڑھنا لازم ٹھہرتا ہے اور فاتح آجکل فصیل محبت سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔

مفتوح تو وہ کبھی ہوتا ہی نہیں منکرین سے البتہ اسے خاص شغف رہتا ہے۔

قابلیت کا قائل ہونا تو بہت اچھی بات ہے ویسے آپ کی طرح میں بھی وضاحت کا طلبگار ہوں کہ آپ کی قابلیت کن مضامین اور شعبوں میں ہے تاکہ فاتح کے تابڑ توڑ حملوں کا تدارک کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مفتوح تو وہ کبھی ہوتا ہی نہیں " جب انسان ڈینائیل میں جی رہا ھوتا ھے تو اسے یہی لگتا ھے منکرین سے شغف بھی اسی لیے ھے ورنہ کس لیے اتنے وضاحتی مضامین اور شدید نفرت شدید محبت سے ہی جنم لیتی ہے ورنہ انکی نفرت محبت نامی بلا سے بے معنی ھے ۔
اور میں تو کسی قابل نہیں ھوں تو بتاوں کیا
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے، تجھ سے عظیم تر ہے

وہ غم جو "محفل کے ایک دھاگے"
کے گلستاں میں‌ سلگ رہا ہے
(وہ غم، جو اس رات کا ثمر ہے)

یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے

لیکن فیض بے چارے نے اس یقینِ سحر میں موت کو گلے لگا لیا یعنی سحر تو نہ آئی مگر موت آ گئی۔۔۔ یہی انجام ہمارا بھی ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا جانے کیسی راتیں تھیں اور خدارا فیض کی راتوں سے مت ملائیں انہیں آپکے تو دکھ ہی اور ھیں
 

صائمہ شاہ

محفلین
جس کا دماغ خراب ہو، جس کی عقل میں فتور ہو یا خلل زدہ دماغ کے حامل کو اور کیا کہا جاتا ہے؟اسے کیا کہیے گا کہ
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ​
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی​
اور​
بیکاریِ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل​
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی​
یا اسے کہ "زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"

دراصل ایک جانب غالب کے مندرجہ بالا اشعار اور ذیل کا شعر ہے کہ جس کا ہم نے حوالہ دیا یعنی
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل​
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

جب کہ دوسری جانب سلیم کوثر کا شعر ہے جس میں پیش کردہ نظریے کو آپ نے اپنے مراسلے میں شامل کیا یعنی
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے​
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
ہم سلیم کوثر کے گرویدہ یقیناً ہیں لیکن بیعت ہم نے غالب کی ہی کی ہے اور جب دو نظریات میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ آ جائے تو ہندوستان کی مقدس کتاب دیوان غالب ہی ہمارا مسلک ٹھہرتا ہے لہٰذا عشق کرنےو الے دماغ کو فتور یا خلل زدہ مانتے ہیں۔
بہرحال۔۔۔
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے​
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کسی اردو روز نامے میں مضمون لکھنا شروع کر دیں اس فن میں کافی مہارت ھے آپکو۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مفتوح تو وہ کبھی ہوتا ہی نہیں " جب انسان ڈینائیل میں جی رہا ھوتا ھے تو اسے یہی لگتا ھے منکرین سے شغف بھی اسی لیے ھے ورنہ کس لیے اتنے وضاحتی مضامین اور شدید نفرت شدید محبت سے ہی جنم لیتی ہے ورنہ انکی نفرت محبت نامی بلا سے بے معنی ھے ۔
اور میں تو کسی قابل نہیں ھوں تو بتاوں کیا

"ڈینائل" کے لیے بھی اردو کا آسان لفظ ہے "انکار"۔

اس بات سے تو مجھے اتفاق ہے کہ شدید محبت کے بعد نفرت میں بھی شدت ہوتی ہے البتہ منکرین سے شغف کا شوق پرانا ہے موصوف کا۔

وضاحتی بیان نہیں یہ تو اعلامیے ہیں جو جاری ہوئے تھے اور اب تک ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔

مجھے تم سب سے نفرت ہے

سنا تھا فراز کی زبانی اب دیکھ بھی لیا

سنا ہے بولے تو باتوں سے "پھول" جھڑتے ہیں
 

ظفری

لائبریرین
جی یقیناً کیوں کہ میری لینڈ میں دریا بھی تو بے شمار ہیں۔۔۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔۔۔ ویسے کیا ان دنوں بحریہ کی ملازمت اختیار کر لی ہے کہ دریاؤں کا سامنا درپیش ہے؟

بےشک دریا تو میری لینڈ میں بہت ہیں ۔ مگر ان کی سمتوں کا تعین نہ ہونے کے سبب ایک دریا سے دوسرے دریا تک کا سفر اب تک جاری ہے ۔ بہرحال میں اب میری لینڈ نہیں شکاگو میں سکونت پذیر ہوں ۔ :)
 
برخوردار ۔۔۔ ۔ بس حسبِ معمول ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ دستخط نہیں دیکھے ۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھے ۔۔۔ ۔۔ !

شکر ہے ظفری کا دیدار بھی ہوا اس دھاگے کے بہانے۔

یار نیویارک کے قریب قریب ہو آجکل تو یہاں کے دریا ہی پار کرکے دیکھ لو۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
شکر ہے ظفری کا دیدار بھی ہوا اس دھاگے کے بہانے۔

یار نیویارک کے قریب قریب ہو آجکل تو یہاں کے دریا ہی پار کرکے دیکھ لو۔ :)

پھرتے ہیں اب دربدر
کسی دن تمہاری طرف بھی آنکلیں گے بھئی ۔۔۔۔۔ بہت دن ہوئے کسی کے ہاں دعوت نہیں کھائی ۔۔۔۔۔ !
 

فاتح

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا جانے کیسی راتیں تھیں اور خدارا فیض کی راتوں سے مت ملائیں انہیں آپکے تو دکھ ہی اور ھیں
ایسی ہی راتیں تھیں محترمہ جیسی کرۂ ارض پر ہوا کرتی ہیں یعنی اس سیارے کے اپنے مدار میں گردش کرنے کے باعث۔ وہ عطارد یا پلوٹو پر تھوڑا ہی رہتا تھا جہاں کی راتیں ہمارے ہاں کی راتوں سے مختلف ہیں۔
جی ہاں ہمارے دکھ تو اور ہی ہیں اور آپ پر تو ہمارے بھی دکھ عیاں ہیں اور فیض کے دکھ بھی روزِ روشن کی مانند کھلے ہوئے ہیں تبھی آپ نے اطمینان سے ان کا موازنہ کر ڈالا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
"ڈینائل" کے لیے بھی اردو کا آسان لفظ ہے "انکار"۔

اس بات سے تو مجھے اتفاق ہے کہ شدید محبت کے بعد نفرت میں بھی شدت ہوتی ہے البتہ منکرین سے شغف کا شوق پرانا ہے موصوف کا۔

وضاحتی بیان نہیں یہ تو اعلامیے ہیں جو جاری ہوئے تھے اور اب تک ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔

مجھے تم سب سے نفرت ہے

سنا تھا فراز کی زبانی اب دیکھ بھی لیا

سنا ہے بولے تو باتوں سے "پھول" جھڑتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے پتہ تھا ڈینایل پر تبصرہ ضرور ھو گا :heehee:
جی پھول تو جھڑتے ھیں یہ توموصوف بھی مانتے ھیں یہ وضاحت بھی کر چکے ہیں پھولوں کی
 
ایسی ہی راتیں تھیں محترمہ جیسی کرۂ ارض پر ہوا کرتی ہیں یعنی اس سیارے کے اپنے مدار میں گردش کرنے کے باعث۔ وہ عطارد یا پلوٹو پر تھوڑا ہی رہتا تھا جہاں کی راتیں ہمارے ہاں کی راتوں سے مختلف ہیں۔
جی ہاں ہمارے دکھ تو اور ہی ہیں اور آپ پر تو ہمارے بھی دکھ عیاں ہیں اور فیض کے دکھ بھی روزِ روشن کی مانند کھلے ہوئے ہیں تبھی آپ نے اطمینان سے ان کا موازنہ کر ڈالا۔

بہت شرارتی ہو بھئی تم بہت۔
 
Top