یا رب یہ زندگی ہے مری کس عذاب میں

استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
استاد محترم جناب الف عین صاحب

ایک غزل اصلاح کے لیے پیش ہے ۔۔۔
آپ کی توجہ کا طالب رہونگا ۔۔ ممنون فرمائیں ۔۔۔
-------------------------
یا رب یہ زندگی ہے مری کس عذاب میں
چھیڑے مجھے ہے اکثر، آ کر وہ خواب میں

بالوں کو گوندھتی تھی وہ، فرقت میں دل یہاں
کھاتا وہ بل، جوں زلف وہاں پیچ و تاب میں

صنف ِ سخن کو بدلا تب بات کچھ بنی
مہکا جواب آ یا عطر ِ گلاب میں

قطع
ترتیب اب کریں، نئی ہمّت کی داستاں
لکھتے ہیں باب اک نیا، ہم اس کتاب میں

بھڑکا نہُ گل ہوا ، نہ کبھی ماند وہ پڑا
کھل کر مقابلہ تھا، دیے آفتاب میں

ساحل بھی دور چھوٹا ، اب تیز ہے ہوا
لو ! بادباں بھی الجھا، اپنی طناب میں

کل تک تو دل لگی میں ہمیں چھیڑتے رہے
اب مسکرا کے دیکھتے ہو بس جواب میں

سینے سے میں لگاؤں، سمجھاؤں ہر طرح
کاشف وہ پھر بھی تڑپے، اک اضطراب میں

سید کاشف
------------------------
 
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
استاد محترم جناب الف عین صاحب

جناب سید کاشف! مصرع بہ مصرع، شعر بہ شعر لفظ بتانا تجویز کرنا؛ وہ شروع شروع میں دو چار دس بار ہوتا ہے، ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے۔ آپ کی اس کاوش پر کچھ وضاحتیں پیش کئے دیتا ہوں، کہاں کہاں منطبق ہوتی ہیں، خود دیکھ لیجئے گا۔
 
اول: وہی بہت بار دہرائی گئی بات کہ شعر اور شے ہے کلامِ منظوم اور شے ہے۔
بقول انور مسعود شعر وہ ہے جو قاری کو چھیڑ دے؛ تو یہ چھیڑنا کیا ہوا؟ اس کے کئی انداز کئی پہلو ہو سکتے ہیں کہیں مفرد کہیں مرکب:
۔1۔ شعر کا پیغام، موضوع، مضمون انداز وغیرہ قاری کو کسی سوال سے آشنا کرے، تجسس لے کر آئے۔
۔2۔ کوئی جذباتی کیفیت ایسے بیان کرے کہ قاری اس میں گرفتار نہیں ہوتا تو مائل ضرور ہو جائے، یا کم از کم اس کیفیت کے احساس یا ادراک سے دو چار ہو۔
۔3۔ انسان کی بہت ساری مستقل قدریں ہیں: پیٹ کا مسئلہ ہے، سر چھپانے کی بات ہے، تعلقات کی باتیں ہیں (محبت، نفرت، غصہ، لاتعلقی،جھلاہٹ، انتقام، خوف، امیدیں، ولولے، کوشش وغیرہ وغیرہ) ان میں سے کسی کو بیان کیجئے یا ایک دو تین کی کوئی مرکب صورت بنتی ہے تو وہ لائیے۔
۔4۔ مفروضات کی بنا پر شعر آپ "بنا" سکتے ہیں، مگر ان پر تکیہ نہ کیجئے۔ آپ پر ایک صورت جو بیتی ہے وہ ہزار مفروضوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔
 
دوم: زبان، ہجے، املاء، محاورہ، روزمرہ، الفاظ، تراکیب؛ ان کو قطعی طور پر درست ہونا چاہئے، ایک شاعر کو یہ عذر زیب نہیں دیتا کہ جی مجھے پتہ نہیں تھا۔ ہجوں کی غلطی خوش ذوق قاری پر اتنی گراں گزرتی ہے کہ جہاں شاعر نے (مثال کے طور پر: ذرہ کو ذرا یا زرہ) غلط لکھا، وہ غزل پر سلام پیش کر کے ایک طرف ہو جائے گا۔
 
آخری تدوین:
سوم: شعر کی زمین (اوزان و ارکان، قوافی، ردیف) اور مصرعے کی ضخامت۔ اس کو بہت متوازن، بہت رواں اور بہت سہل رکھئے، آپ اور آپ کا قاری اور سامع دونوں سہولت میں رہیں گے۔ ردیف بہت پابندیاں لاتی ہے۔ اس غزل میں آپ نے "میں" ردیف رکھی ہے۔ یہ حرفِ جر ہے اور ظرف (زمان، مکان) کی علامت ہے۔ آپ کو اس سے باہر نہیں جانے دے گا۔ قوافی جہاں مضامین لاتے ہیں وہیں کچھ پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔ آپ مہتاب کے ساتھ اکتساب کا قافیہ نہیں لا سکتے (کہ کوئی معروف بحر اس کی اجازت نہیں دے گی) اس کو ماہتاب لکھئے اور پڑھئے تو تو اس کے برابر اکتساب آ جائے گا۔

ادھر مشہور زمینوں میں شعر موزوں کرنا ایک لحاظ سے خطرناک بھی ہے۔ آپ نے غالب کی زمین میں غزل کہہ دی، آپ کا خوش ذوق قاری غالب سے بیگانہ نہیں رہ سکتا، اس کے ذہن میں غالب کی غزل فوراً گونجے گی۔ بجا کہ قاری کو آپ سے ایسی کوئی توقع وابستہ نہیں کرنی چاہئے کہ آپ غالب کو بچھاڑ دیں گے، تاہم وہ آپ سے کچھ نکھرے ہوئے، منجھے ہوئے، اور پکائے ہوئے شعروں کی توقع ضرور وابستہ کرے گا۔
 
آخری تدوین:
چہارم: یہ مت کہئے گا کہ جی میں تو اپنے لئے شعر کہتا ہوں؛ یا یہ تو ایک طرح کا کتھارسس ہے وغیرہ۔ قاری اور سامع کو منہا کر دیجئے تو آپ کے پاس شعر کہنے کا جواز ہی نہیں رہ جاتا۔ آپ کے شعر کا مافی ضمیر آپ کے قاری تک پہنچنے میں کچھ حصہ قاری کا ہے اور کچھ آپ کا بھی ہے۔ غزل کے شعر کا قاری آپ سے بجھارتوں کی توقع نہیں رکھتا، ہاں! کسی ڈھنگ سے سلیقے سے آپ کچھ بات اس سے چھپا لیں تو وہ اس کو آپ کی ادا سمجھ کر اس پر فریفتہ بھی ہو سکتا ہے۔

کوئی بات خلافِ واقعہ نہ کیجئے۔ اور اگر ایسا کچھ کہنا ہے تو پھر اس کا کوئی (قابلِ قبول) جواز، کوئی (خوبصورت سا) بہانہ بھی لانا ہو گا۔ عید کے چاند کے حوالے سے غالب نے کیا خوب کہا ہے (یاد رہے کہ نئے چاند سے کبھی دو دن اور کبھی تین دن پہلے چاند کسی وقت بھی دکھائی نہیں دیتا):
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ چاند کو بہانہ سازی کی کیا حاجت! وہ تو ایک مضبوط حسابی نظام پر چلتا ہے۔ " الشمس والقمر بحسبان " (سورۃ الرحمٰن)۔

قاری کو آپ کا شعر اتنا ہی اچھا لگے گا، جتنی وہ آپ کے اور قاری کے درمیان سانجھ رکھے گا۔ سو، عمومی انسانی سطح اور انسانی طرزِ احساس و استدلال کے قریب رہیے، اور بلند خیالی کو بھی اسی سطح سے اٹھائیے۔ آپ خلا سے بات کریں گے تو زمین والے شاید اس کو سمجھ ہی نہ پائیں۔
 
آخری تدوین:
پنجم: اردو پر بھی دیگر زبانوں کی طرح کئی ادوار آئے ہیں۔ وہ الفاظ اور تراکیب جو کبھی ادب میں بھی حسن سمجھی جاتی تھیں، آج متروک ہو گئیں۔ امیر خسرو نے تب "ورائے نیناں" کہا تھا، ٹھیک کہا تھا؛ وہ اب نہیں چلے گا۔ "کبھو، کسو، کوں، سوں" ولی نے بہت خوبی سے باندھے، آج میں اور آپ ایسا کریں گے تو خود نہیں نبھا پائیں گے۔ "آوے ہے، جاوے ہے، کرو ہو، سنو ہو، بیٹھوں ہوں" ان کا لطف بھی جاتا رہا۔ ایسی زبان لانی ہے تو ضرور لائیے مگر پورے ماحول کے ساتھ لائیے، ایک آدھ لفظ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے بلندی پر اڑتا ہوا کوئی پرندہ فرش نشین کے سر پر اپنا کام دکھا گیا۔
 
ششم: غزل کے شعروں میں ریزہ خیالی اور تسلسلِ خیال و مضمون دونوں رویے معروف ہیں۔ بہ این ہمہ ایک غزل کے تمام شعروں میں کبھی مزاج کے حوالے سے، کبھی لفظیات کے حوالے سے ایک لطیف سی فضا تشکیل پا جاتی ہے؛ اسے آپ غزل کی زیریں رَو کہہ لیجئے۔ کوئی شعر اس لطیف سے تعلق میں پوری طرح رچا بسا نہ ہو تو بہتر ہے اس کو الگ رکھ لیں کسی اور غزل کا حصہ بن جائے گا۔ اور اگر غزل میں سرے سے کوئی فضا بن ہی نہیں رہی تو الگ بات ہے، کوئی سا شعر ترتیب میں کہیں بھی آ جائے چنداں فرق نہیں پڑتا۔
 
ہفتم: خاص طور پر غزل کے شعر میں الفاظ کی در و بست اور ترتیب بہت اہم ہوتی ہے۔ کوئی لفظ کہاں ہو تو مؤثر ہو گا، کہاں ہو تو معانی میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے؛ اس کو تعقید کہتے ہیں۔ ہمیں کسی نہ کسی سطح پر تعقید سے کام لینا ہوتا ہے تا کہ اوزان سے موافقت قائم کی جا سکے، تاہم اگر کوئی لفظ معنوی یا لسانی حساب میں بہت دور جا پڑے تو یہی تعقید نقص بن جاتی ہے۔ مراعات کا اور علامات کا نظام ہے، استعارات کا نظام ہے؛ وغیرہ۔ یہ سارے حربے ہوتے ہیں جو شعر کی جمالیاتی سطح بناتے ہیں۔ جمالیات (بنانا، سنوارنا، نکھارنا، ترتیب دینا، حسن پیدا کرنا) ہی تو وہ چیز ہے جو عام زبان کو ادب بناتی ہے اور کلامِ منظوم کو اٹھا کر شعر کے درجے تک لے جاتی ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ کی محبت ہے فرحان۔ میں تو سہولت کی کوشش میں رہتا ہوں؛ اپنے لئے بھی اور اپنے قاری کے لئے بھی۔
دعاؤں کا طالب ہوں۔
محترم آسی صاحب سماں باندھ دیا آپ نے تو۔ بیٹھے بٹھائے اصلاحِ کلام پر اتنا پر مغزلیکچر دینے پر میں آپ کا اور فورم کے منتظمین دونوں کا شکر گزار ہوں۔ کاشف اسراراحمدصاحب کی غزل کا عنوان کتنا زبردست اور حسبِ حال ہے۔
 
محترم آسی صاحب سماں باندھ دیا آپ نے تو۔ بیٹھے بٹھائے اصلاحِ کلام پر اتنا پر مغزلیکچر دینے پر میں آپ کا اور فورم کے منتظمین دونوں کا شکر گزار ہوں۔ کاشف اسراراحمدصاحب کی غزل کا عنوان کتنا زبردست اور حسبِ حال ہے۔
ع: از کجا می آید این آوازِ دوست
آپ کی محبت ہے حضور۔ ممنون ہوں! دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
ماشا اللہ ۔۔۔۔۔ ماشا اللہ ۔۔۔
استاد محترم ۔۔ واقعی فرحان صاحب نے خوب کہا ۔۔۔ میں متفق ہوں ۔۔
پر مغز نکتہ آفرینی ۔۔ زبردست بیان۔۔۔ سلسلہ وار اسباق ۔۔۔ واہ ۔۔۔ کہیں کوئی ابہام نہیں ۔۔۔۔ صاف و شفاف نکات ۔۔۔
ہم مبتدی شعراء آپ سے جتنا کچھ سیکھتے ہیں اس کا حساب ممکن نہیں ۔۔۔
آپ کے اس تبصرے کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔۔۔
جزاک اللہ ۔۔۔۔
 
ششم: غزل کے شعروں میں ریزہ خیالی اور تسلسلِ خیال و مضمون دونوں رویے معروف ہیں۔ بہ این ہمہ ایک غزل کے تمام شعروں میں کبھی مزاج کے حوالے سے، کبھی لفظیات کے حوالے سے ایک لطیف سی فضا تشکیل پا جاتی ہے؛ اسے آپ غزل کی زیریں رَو کہہ لیجئے۔ کوئی شعر اس لطیف سے تعلق میں پوری طرح رچا بسا نہ ہو تو بہتر ہے اس کو الگ رکھ لیں کسی اور غزل کا حصہ بن جائے گا۔ اور اگر غزل میں سرے سے کوئی فضا بن ہی نہیں رہی تو الگ بات ہے، کوئی سا شعر ترتیب میں کہیں بھی آ جائے چنداں فرق نہیں پڑتا۔

استاد محترم ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں میری تعلیم کا اگلا مرحلہ یہی ہے۔۔۔
ایک غزل کی فضا کو بنائے رکھنا اب مجھے سیکھنا ہوگا ۔۔۔
انشا اللہ ۔۔۔ اب پوری کوشش کرونگا ۔۔
 
سوم: شعر کی زمین (اوزان و ارکان، قوافی، ردیف) اور مصرعے کی ضخامت۔ اس کو بہت متوازن، بہت رواں اور بہت سہل رکھئے، آپ اور آپ کا قاری اور سامع دونوں سہولت میں رہیں گے۔ ردیف بہت پابندیاں لاتی ہے۔ اس غزل میں آپ نے "میں" ردیف رکھی ہے۔ یہ حرفِ جر ہے اور ظرف (زمان، مکان) کی علامت ہے۔ آپ کو اس سے باہر نہیں جانے دے گا۔ قوافی جہاں مضامین لاتے ہیں وہیں کچھ پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔ آپ مہتاب کے ساتھ اکتساب کا قافیہ نہیں لا سکتے (کہ کوئی معروف بحر اس کی اجازت نہیں دے گی) اس کو ماہتاب لکھئے اور پڑھئے تو تو اس کے برابر اکتساب آ جائے گا۔

بہت بہتر استاد محترم ۔۔
اب سے اس جانب بھی خصوصی توجہ دیا کرونگا۔۔ انشا اللہ ۔۔
 
اول: وہی بہت بار دہرائی گئی بات کہ شعر اور شے ہے کلامِ منظوم اور شے ہے۔
بقول انور مسعود شعر وہ ہے جو قاری کو چھیڑ دے؛ تو یہ چھیڑنا کیا ہوا؟ اس کے کئی انداز کئی پہلو ہو سکتے ہیں کہیں مفرد کہیں مرکب:
۔1۔ شعر کا پیغام، موضوع، مضمون انداز وغیرہ قاری کو کسی سوال سے آشنا کرے، تجسس لے کر آئے۔
۔2۔ کوئی جذباتی کیفیت ایسے بیان کرے کہ قاری اس میں گرفتار نہیں ہوتا تو مائل ضرور ہو جائے، یا کم از کم اس کیفیت کے احساس یا ادراک سے دو چار ہو۔
۔3۔ انسان کی بہت ساری مستقل قدریں ہیں: پیٹ کا مسئلہ ہے، سر چھپانے کی بات ہے، تعلقات کی باتیں ہیں (محبت، نفرت، غصہ، لاتعلقی،جھلاہٹ، انتقام، خوف، امیدیں، ولولے، کوشش وغیرہ وغیرہ) ان میں سے کسی کو بیان کیجئے یا ایک دو تین کی کوئی مرکب صورت بنتی ہے تو وہ لائیے۔
۔4۔ مفروضات کی بنا پر شعر آپ "بنا" سکتے ہیں، مگر ان پر تکیہ نہ کیجئے۔ آپ پر ایک صورت جو بیتی ہے وہ ہزار مفروضوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔
۔۔۔۔
استاد محترم
اب جو نیا کلام موزوں کرتا ہوں تو اس کا خیال رکھتا ہوں ۔۔۔
ہاں میری کم علمی اور نو آموزی مجھے ابلاغ اور بیان سے عاجز کرے تو وہ الگ بات ہے۔۔۔
 
استاد محترم
اب جو نیا کلام موزوں کرتا ہوں تو اس کا خیال رکھتا ہوں ۔۔۔
ہاں میری کم علمی اور نو آموزی مجھے ابلاغ اور بیان سے عاجز کرے تو وہ الگ بات ہے۔۔۔

ایک نکتہ پہلے مذکور نہیں ہوا۔ میرے دوست تھے ڈاکٹر رؤف امیر، کہا کرتے تھے: ’’اپنے لکھے کو پالش کرتے رہا کرو‘‘۔

یعنی ایک شعر، قطعہ، غزل، نظم، مضمون، انشائیہ، خاکہ، کہانی، یا جو کچھ بھی وہ ہے؛ ’’فائنل کر دیا تو کر دیا‘‘ والا رویہ درست نہیں۔ اپنے لکھے کو مکرر دیکھتے رہا کریں، جوں جوں وقت گزرے گا، آپ تنقیدی اور نظری طور پر پختہ تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اپنے پہلے لکھے ہوئے کی اصلاح خود کرتے رہئے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے پہلے شعری مجموعے کا دوسرا ایڈیشن چھاپا تو دوستوں نے دیکھا اس میں سے کچھ غزلیں نکال دی گئی تھیں اور کتنے ہی شعر ترمیم شدہ تھے۔ میرے پاس ان کی کتاب پر لکھا پرانا مضمون تھا۔ میں نے اپنے پرچے کا ’’رؤف امیر نمبر‘‘ جاری کیا تو اس میں وہ مضمون شامل اس اضافی جملے کے ساتھ شامل کیا: یہ مضمون ’’درِ نیم وا‘‘ کے پہلے ایڈیشن پر مبنی ہے۔

میں نے خود اپنے متعدد شعر، بیس پچیس سال گزر جانے کے بعد بھی’’ٹھیک‘‘ کئے ہیں۔ میرے ایک دوست عارف خیام راؤ نےسولہ سترہ برس پہلے کہے ہوئے اپنے ایک قطعے میں پچھلے ہفتے تبدیلی کی۔
 
آخری تدوین:
Top