یا رب کوئی دن یوں بھی مدینے میں بسر ہو۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ پہلی صورت ہی پرکیف تھی :یوں: کو یک حرفی باندھ دینا میری رائے میں اس نئی بے کیف ترتیب سے تو پھر بہتر تھا ۔پھر :ہوا بھرنا: ایک الگ ہی محاورہ ہے۔خود دیکھیں:
مطلع میں ۔ یوں ۔ کی نشست کمزور ہے۔
یارب کوئی دن یوں بھی ۔ ۔ ۔ اس طرح بہتر ہو گا۔

سانسوں والا شعر بھی دوبارہ کہنا چاہیئے۔
سانس میں سمانا استعمال ہو تو بہتر ہے۔ ۔ ۔ بھرنا اچھا نہیں لگ رہا ۔ جیسے
سانسوں میں سما جائیں مدینے کی فضائیں ۔
انہی اور ۔ہی۔ دونوں متصادم ہیں۔
روفی بھائی ماشاء اللہ اچھی تجاویز آگئیں ۔
مطلع تو آپ شکیل احمد خان23 کی تجویز پہ درست کر ہی چکے ہیں۔
انھی اور ہی کی تکرار واقعی میں نے نوٹ نہیں کی تھی اس ضمن میں بھی ان کی تجویز اچھی تھی۔

باقی سانسوں والا مصرع خود دیکھ لیں، البتہ ایک بات ہے فضاوں کا سانسوں میں سمانا کچھ عجیب لگتا ہے بجائے ہواؤں کے۔
کبھی کبھی دماغ کسی بات کے ایک ہی پہلو پر اٹک سا جاتا ہے۔ ابھی میرے ساتھ ایسے ہی چل رہا ہے بہرحال نئے مشوروں کی روشنی میں بات کو ذرا مختلف ڈھنگ سے کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
روفی بھائی ماشاء اللہ اچھی تجاویز آگئیں ۔
مطلع تو آپ شکیل احمد خان23 کی تجویز پہ درست کر ہی چکے ہیں۔
انھی اور ہی کی تکرار واقعی میں نے نوٹ نہیں کی تھی اس ضمن میں بھی ان کی تجویز اچھی تھی۔

باقی سانسوں والا مصرع خود دیکھ لیں، البتہ ایک بات ہے فضاوں کا سانسوں میں سمانا کچھ عجیب لگتا ہے بجائے ہواؤں کے۔

تا عمر انہی سانسوں پہ پھر میری گزر ہو
اس مصرعے میں بھی "سانسوں" دب رہا ہے۔
کیا اس طرح چل جائے گا؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ

یا رب یوں کوئی روز مدینے میں بسر ہو
میں ہوں، مری آہیں ہوں، مری دیدۂ تر ہو

نغمہ ہو مرے لب پہ فقط صلِ علیٰ کا
ہر دم ترے محبوب کے روضے پہ نظر ہو

انفاسِ نبی ﷺ سے جو معطر ہوئیں گلیاں
کچھ دن ہی سہی اُن میں کبھی میرا بھی گھر ہو

سانسوں میں یوں بھر لوں میں مدینے کی ہوائیں
تا عمر اُنہی سانسوں پہ ہی میری گزر ہو

جن کے قدمِ پاک سے یثرب ہوا طیبہ
آباد انہی سے مرے دل کا بھی نگر ہو

اے کاش وہی وقتِ قضا ہو مرے مولا
جس وقت مدینے سے مجھے اذنِ سفر ہو
اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ نَبیِنَا محمد وَ عَلیٰ آلہ وَ اَصَحابہ وَ بَاِرک وَسَلِّم!

محمد عبدالرؤوف ، اللہ کریم آپ کی دعائیں قبول فرمائے ۔ آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
انھی کی ہی سے مراد فقط ہی تو ہے۔
"ہی" اور "فقط" اکابرین نے ایک ساتھ بے دریغ استعمال کیا ہے۔

چند مثالیں۔

میر تقی میر
خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ
حسن کیا کیا، ادائیں کیا کیا ہیں

یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ تماشا سا دکھایا ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغ دہلوی
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض کی ایک مشہور نظم کی لائن ہے۔
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جو سانس میں لے کر چلوں طیبہ کی فضا سے
تا عمر انہی سانسوں پہ فقط میری گزر ہو
جو سانس لو ں یثرب کی معطر سی فضا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو سانسیں چلا لے کے میں یثرب کی فضا سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو سانسیں چلوں لے کے مدینے کی فضاسے
تا عمر مری سانسو ں میں اُس کا ہی اثر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یارب ۔مری سانسوں ۔میں سدا ۔اُن ۔کا اثر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یار ب مری ہر سانس میں ان کا ہی اثر ہو
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
"ہی" اور "فقط" اکابرین نے ایک ساتھ بے دریغ استعمال کیا ہے۔

چند مثالیں۔

میر تقی میر
خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ
حسن کیا کیا، ادائیں کیا کیا ہیں

یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ تماشا سا دکھایا ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغ دہلوی
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض کی ایک مشہور نظم کی لائن ہے۔
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روفی بھائی کل میں آن لائن آیا تو آپ نے یہ مراسلہ میرے نام چھوڑ دیا ،دیکھ کر دکھ ہوا ،نہ سلام نہ دعا ایک چڑھائی کا سا انداز۔پہلی بات تو یہ نہ میں نہ اصلاح سخن کا کوئی اور صلاح کار یہاں کسی کا نوکر ہے۔بہتوں کے ظاہری اخلاق محض خواتین میں جتیندر بننے کے سوا اور کچھ نہیں۔
میں آپ کا دوست ہوں لیکن یہاں نہیں ۔آداب کا پاس رکھیں تو مناسب ہے ورنہ؛ وڑ: گئی اصلاح اور معطلی کا مجھے قطعا کوئی ڈر نہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
روفی بھائی کل میں آن لائن آیا تو آپ نے یہ مراسلہ میرے نام چھوڑ دیا ،دیکھ کر دکھ ہوا ،نہ سلام نہ دعا ایک چڑھائی کا سا انداز۔
نہایت معذرت، اگر آپ کو یہ محسوس ہوا ہو کہ میں سوئے ادب کا مرتکب ہوا ہوں۔
لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی بھی اپنے معزز اصلاح کاروں سے اصلاح کی لڑیوں میں سلام و دعا کا تکلف کیا ہو۔ لیکن کچھ دنوں سے میں آپ کے مزاج میں سختی دیکھ رہا ہوں، اب خدا جانے اس کا سبب میں ہی ہوں یا کوئی اور۔
پہلی بات تو یہ نہ میں نہ اصلاح سخن کا کوئی اور صلاح کار یہاں کسی کا نوکر ہے۔
ان شاءاللَٰه آئندہ کوشش کروں گا کہ کسی صاحب کو زحمت دینے سے گریز کروں گا۔ اب دیکھتے ہیں یہ عزم کب تک ساتھ دیتا ہے

بہتوں کے ظاہری اخلاق محض خواتین میں جتیندر بننے کے سوا اور کچھ نہیں۔
میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ بلا تفریق سب سے اچھے سے بات کروں۔ ممکن ہے بشری کمزوریاں کہیں آڑے آ گئی ہوں اور کسی سے نا شائستہ بات ہو گئی ہو۔
میں آپ کا دوست ہوں لیکن یہاں نہیں ۔
بہت شکریہ۔
آداب کا پاس رکھیں تو مناسب ہے ورنہ؛ وڑ: گئی اصلاح
آپ کے مراسلے کی سختی کا مجھے اتنا رنج نہیں ہوا جتنا اس بات سے ہوا۔ کیونکہ آپ ایک نعتیہ لڑی میں تبصرہ کر رہے ہیں۔
اب بس اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
والسلام ، خوش رہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
لیکن کچھ دنوں سے میں آپ کے مزاج میں سختی دیکھ رہا ہوں، اب خدا جانے اس کا سبب میں ہی ہوں یا کوئی اور۔

روفی بھائی یہی رائے میری آپ کے متعلق ہے کہ اچانک سے آپ میں کوئی ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ کل سے آپ تین تین لڑیوں میں میرے پیچھے لغت اور اسناد لیے دوڑ رہے ہیں -مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں ،یا معذرت قبول نہ ہو تو عنقریب کوئی میرے نام دشنام بھرا خط آئے ،آپ حسب سابق زبردست یا پسندیدہ کی ریٹنگ دے کر دل کے پھپھولے پھوڑ لیجیے گا -حساب برابر ہو جائے گا -
"ہی" اور "فقط" اکابرین نے ایک ساتھ بے دریغ استعمال کیا ہے۔

چند مثالیں۔

میر تقی میر
خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ
حسن کیا کیا، ادائیں کیا کیا ہیں

یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ تماشا سا دکھایا ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغ دہلوی
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض کی ایک مشہور نظم کی لائن ہے۔
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں مدعا کی طرف ،دیکھیے میں استاد نہیں ہوں بلکہ یہاں ان معنوں میں کوئی بھی استاد نہیں کہ جس کو علم ادب پہ وثوق ہو ،صرف تجربے ،مطالعے اور علم کی وجہ سے کوئی کم ہے کوئی ذرا زیادہ لیکن میری نظر میں ایسی ناکافی علمیت کے ساتھ ایسا لب و لہجہ جس میں استادانہ وثوق ہو، نامناسب ہے اس لیے میں تو کہیں کہیں ڈسکلیمر بھی لگا لیتا ہوں کہ میری باتیں مستند نہیں - سو ایسی ہی غیر مستند رائے میری آپ کے اٹھائے نکتے پہ یہ ہے کہ ہی ،فقط،محض ،ہمھی ،تمھی ،خالی وغیرہ جیسے حروف حروف حصر ،حروف خصوصیت یا حروف تخصیص کہلاتے ہیں -جملے میں عموماً ان میں سے ایک سے اگر حصر کا کام لیاجارہا ہو تو دوسرا زائد از ضرورت کہلائے گا یعنی بھرتی یا حشو -میں نے عرض کیا تھا
انھی کی ہی سے مراد فقط ہی تو ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ :ہی: سے بھی وہی حصر اور تخصیص مقصود ہے جو: فقط: سے اگر :ہی:اور :فقط: دونوں استعمال کیے جائیں تو ایک بھرتی کا ہو گا- نکتۂ اعتراض اگر یہ ہو کہ مصرع میں فلاں لفظ بھرتی کا ہے اور اس کی دلیل یہ دی جائے کہ فلاں استاد کے ہاں بھی یہ بھرتی ہے تو یہ دلیل لغو ہو گی کیونکہ کسی استاد کا کلام بھرتی سے خالی نہیں -لہٰذا بھرتی کے جواز کے طور پرکسی استاد کی بھرتی بھی قابل قبول نہ ہوگی -
یہ دیکھنے کے لیے کہ آپ کے پیش کردہ اشعار میں :ہی: اور: فقط: میں سے ایک بھرتی کا ہے، بھرتی یعنی حشو کی تعریف سامنے ہونی چاہیے اور حشو کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ لفظ جس کے ڈالنے سے شعر کے معنی میں اضافہ نہ ہو اور نکالنے سے شعر کے معنی میں کمی نہ ہو -اب آپ خود اپنے لائے ہوئے اشعار پہ غور کریں،ہر ایک سے :ہی : یا :فقط: ہٹا ہٹا کرغور کریں ، آپ کو صاف محسوس ہوگا کہ :ہی: کے ساتھ :فقط: بھرتی کا ہے -ہاں یہ البتہ ہے کہ حشو کی بھی دو قسمیں ہیں ایک حشو ملیح اور ایک حشو قبیح -حشو ملیح وہ بھرتی ہے جو بری نہیں لگتی جبکہ حشو قبیح وہ بھرتی ہے جو ذوق کو کھٹکتی ہے -چنانچہ یہ فیصلہ ذوق پہ منحصر ہے کہ کیا حشو قبیح ہے اور کیا حشو ملیح آپ کے پیش کردہ اشعار میں زیادہ تر مذکورہ حروف حشو ملیح ہیں کہ ان دونوں کا اکٹھے ہونا نہ ہونا معنوی اعتبار سے برابر ہے اور ذوق کو کھٹک بھی نہیں رہا البتہ آپ کا مجوزہ مصرع میرے ذوق کو کھٹکا جس پہ عرض کیا اور اب اس ایک جملے کی اتنی صفائی پیش کرنی پڑی -
 
Top