یا خدا۔ قدرت اللہ شہاب

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

الف عین

لائبریرین
’اس طرف کیا تاکتی ہے سالی؟ تیرا کوئی خصم ہے اُدھر؟‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریک سنگھ نے کرپان کی نوک سے دلشاد کی پسلیوں کو گدگدایا، اور بایاں گال کھینچ کر اس کامنہ پچھّم سے پورب کی طرف گھما دیا۔
دلشاد مسکرا دی۔
یہی مسکراہٹ ہی اس کا خاصّہ بن گئی تھی۔



۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
بچپن میں اس کا کامیاب ترین ہتھیار اس کا رونا تھا۔ ایک ذرا سی ریں ریں راں راں کر کے وہ ماں کے سینے میں مونہہ چھپائے دودھ سے لے کر الماری میں رکھی برفی تک ہر چیز کو حاصل کر لیا کرتی تھی۔ اب جوانی نے اس کی مسکراہٹ میں اثر پیدا کر دیا تھا۔ اس نئے جادو کا علم اس کو اس وقت ہعا جب اس کی ایک مسکراہٹ پر نثار ہو کر رحیم خاں نے قسم کھائی تھی کہ اگو چاند یا سورج یا تارے بھی اسے اٹھا لے جائیں تو وہ ارض و سما کی وسعتیں پھاند کر اسے چھین لائے گا!!
رحیم خاں جھوٹا تھا۔ مکّار کہیں کا۔ آسمانوں کی تو دور کی بات تھی، وہ تو اسے زمین ہی پر کھو بیٹھا۔ دلشاد نظر بچا کر قِبلہ رو ہو کر بیٹھتی تھی اور خیال ہی خیال میں اپنی جبیں کو اس آستانے پر جھکا دیا کرتی تھی، جس کے دامن میںرحمتوں اور نعمتوں کی ایک بے کراں دنیا پوشیدہ بتائ جاتی تھی۔ مغرب کی طرف کعبہ تھا۔ کعبہ اللہ میاں کا اپنا گھر تھا۔ اس گھر کا تصوّر دلشاد کے دل میں عقیدت اور امّید کا ایک تابناک چراغ روشن کر دیتا تھا۔ لیکن امریک سنگھ کو پچھّم سے چِڑ تھی۔ یوں بھی سکھّوں کی اس بستی میں چند رواج بڑے ٹیڑھے تھے۔ ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ بارہ سے بارہ بجے تک اُن کے اعصاب کمان کی طرح تنے رہتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا گویا کسی نے بستی بھر کے بچّوں، جوانوں اور بوڑھوں کو بجلی کے تار میں پرو کر برقا دیا ہے۔
امریک سنگھ کا گھر مسجد کے عقب میں واقع تھا۔ اس مسجد کے دامن میں ایک بھیانک سا واہمہ پرورش پا رہا تھا۔ گاؤں بھر میں یہ بات پھیل وہی تھی کہ سرِ شام ہی مسجد کے کنویں سے عجیب عجیب ڈراؤنی آوازیں سنائ دینے لگتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے دو چار بکریوں کو بیک وقت ضبح کیا جا رہا ہو۔
’سالا حرامی!‘ امریک سنگھ کہا کرتا تھا۔ ’مرنے کے بعد بھی ڈکرا رہا ہے بھینسے کی طرح۔ ڈال دو کچھ ٹوکرے کوڑے کے کنویں میں‘
’ارے چھوڑو بھی‘ امریک سنگھ کا بھائ ترلوک سنگھ مذاق اڑاتا تھا: ’بانگ دے رہا ہے مُلاّ بانگ!‘
’خالصہ جی کے دربار میں دھرم کی پوری پوری آزادی ہے۔ ہاں!‘ گیانی دربار سنگھ جبڑے پھاڑ کر ہنستا تھا۔
لیکن امریک سنگھ کی بیوی ڈرتی تھی۔ رات کو سنّاٹے میں جب مسجد کا کنواں گلا پھاڑ پھاڑ کر چنگھاڑتا، تو اس کا تن بدن ٹھنڈے پسینے میں شرابور ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ملاّ علی بخش کی تصویر آ جاتی، جو مسجد کے حجرے میں رہا کرتا تھا، نحیف بدن، دو ہاتھ کی لمبی داڑھی، آنکھوں پر موٹے گلاس کا چشمہ، سر پرسبز ململ کی بے ڈھب سی پگڑی، ہاتھوں میں رعشہ، گردن میں اُبھری ہوئی رگیں۔ لیکن جب وہ صحن میں کھڑا ہو کے پانچ وقت اذان دیتا تو مسجد کے گنبد گونج اٹھتے اور علی بخش کے نحیف و نڈھال گلے سے وہ زنّاٹے کی آواز نکلتی جیسے بہت سی آنشاریں دست بداماں پو کر گونج رہی ہوں۔
اذان کی آواز سے امریک سنگھ کی بیوی کو بڑی کوفت ہوتی تھی۔ ایک وقت یا دو وقت کی بات ہوتی تو خیر۔ لیکن جب دن بھر میں پانچ بار اسے یہی بول سنا پڑتے تو وہ گھبرا جاتی۔ اس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کی اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں اور جوان عورتیں اسے سن کر ’بانگی‘ جاتی ہیں۔ اگر بن بیاہی نوخیز لڑکی بانگی جائے تو اس کے بانجھ ہو جانے کا ڈر تھا۔ اگر بیاہی ہوئ بیوی بانگی جائے تو اس کے حمل گرنے لگتے تھے۔! چنانچہ امریک سنگھ کے گھر میں پشتہا پشت سے یہ رسم تھی کہ ادھر اذان کی آواز فضا میں لہرائ ادھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کر دیا، کسی نے چمٹے کو توے سے لرایا۔ کوئ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر بیٹھ گئ، کوئ بھاگ کر پچھلی کوٹھری میں جا گھسی۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوھ کو کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top