یار کو دیدہء خونبار سے اوجھل کر کے (اسلم کولسری)

یار کو دیدہء خونبار سے اوجھل کر کے
مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے

جانبِ شہر فقیروں کی طرح کوہِ گراں
پھینک دیتا ہے بخارات کو بادل کر کے

دل وہ مجذوب مغنی کہ جلا دیتا ہے
ایک ہی آہ سے ہر خواب کو جل تھل کر کے

جانے کس لمحہء وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے

یعنی ترتیبِ کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے
اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے​

(اسلم کولسری)​
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ ،، واہ واہ ۔ کیا جواب ہے جناب ، بہت خوب کلام پیش کیا ، دل باغ باغ ہوگیا، کولسری صاحب کا مزید کلام بھی پیش کیجیے، ہم منتظر ہیں
 

جیا راؤ

محفلین

جانے کس لمحہء وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے



واہ۔۔۔۔۔ بہت ہی خوب۔۔۔۔:):)
 

الف عین

لائبریرین
عمران چھا گئے ہو بھائی۔ کن کن شاعروں کی کس کس غزلوں کی تعریف کی جائے، باقی جگہ شکریے کا بٹن دبا دیتا ہوں، اور یہاں مجموعی داد دے دیتا ہوں، مجموعی شکریہ کے ساتھ۔
 
الف عین جی آپ کا کس منہ سے شکریہ ادا کروں۔ بہرحال جو ہے اسی سے کر دیتا ہوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دلی مسرت ہوتی ہے۔ اسی طرح حوصلہ بڑھاتے رہیے اور ہم آگے بڑھتے رہیں گے۔ انشاء اللہ۔
 
Top