ہے فیض ترا جاری شاہان و گدا بھی ہیں

غزل کے کچھ اشعار ...

اصحاب خدا بھی ہیں ہم اہل ہوا بھی ہیں
ہے فیض ترا جاری شاہان و گدا بھی ہیں

بے گانوں کی بستی ہے انجان ہیں سارے ہی
اس بھیڑ میں دھوکے کی کچھ اہل وفا بھی ہیں

کتنوں سے ملا ہوں میں سب جاننے والے ہیں
دو ایک ہیں پر ایسے جو دوست نما بھی ہیں

جھوٹا ہے بھرم تیرا جھوٹی ہے انا میری
اک قرب کا عالم ہے ، دیکھو تو جدا بھی ہیں

ہم خود ہی تماشہ ہیں ہم خود ہی تماشائی
نقارہ دو عالم آواز خدا بھی ہیں

دشنام ہیں دامن میں یہ کوئے ملامت ہے
لیکن مری جھولی میں کچھ حرف دعا بھی ہیں

یہ کیسا زمانہ ہے ہم لوگ کہاں پر ہیں ..؟
یا رب تری بستی میں کچھ لوگ خدا بھی ہیں

دیوانہ ہوں دیوانہ کیوں مجھ سے الجھتے ہو
ہیں لفظ مرے کڑوے لیکن یہ دوا بھی ہیں

کیوں تم نے حسیب ایسی محفل یہ سجائی ہے
دشمن بھی یہاں پر ہیں یاران سدا بھی ہیں

حسیب احمد حسیب
 
Top