ہے غرض ہم کو بس دعاؤں سے

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہے غرض ہم کو بس دعاؤں سے
کام چلتا نہیں دواؤں سے

ہم بچاتے نہیں ہواؤں سے
دل تو ٹوٹا نہیں جفاؤں سے

ہے فقط یار کی وفا پہ نظر
ہم نہیں ڈر رہے بلاؤں سے

موت کے منہ سے آگئے واپس
سب ہوا ہے تری دعاؤں سے

دور ہوتے ہیں خون کے رشتے
شہر ایسے جدا ہے گاؤں سے

دھوپ میں پک رہے ہیں پھل سارے
کچھ نہیں مل رہا تھا چھاؤں سے

ہوسکے گر تو دل میں رکھ لو ہمیں
ہم کو ٹھوکر نہ مارو پاؤں سے

سب کو بارش کا خوف ہے ورنہ
کون ڈرتا ہے ان گھٹاؤں سے

باپ بن کر یہ بھول مت جانا
طفل سب سیکھتے ہیں ماؤں سے

غیر بھی کام آگئے شاہد
تھی نہ امید آشناؤں سے


برائے توجہ: جناب محمد یعقوب آسی صاحب
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ لیکن میرے نزدیک جمع کے صیغے کے گھٹاؤں، وفاؤں کے ساتھ گاؤں،پاؤں، چھاؤں نہیں باندھا جا سکتا۔ ان کے تلفظ مختلف ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر میں الٹے پیش جیسی آواز ہوتی ہے۔
 
اچھی غزل ہے۔ لیکن میرے نزدیک جمع کے صیغے کے گھٹاؤں، وفاؤں کے ساتھ گاؤں،پاؤں، چھاؤں نہیں باندھا جا سکتا۔ ان کے تلفظ مختلف ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر میں الٹے پیش جیسی آواز ہوتی ہے۔
آداب ۔
اپنی گزارشات شاید کل کسی وقت پیش کر سکوں۔
 
اچھی غزل ہے۔ لیکن میرے نزدیک جمع کے صیغے کے گھٹاؤں، وفاؤں کے ساتھ گاؤں،پاؤں، چھاؤں نہیں باندھا جا سکتا۔ ان کے تلفظ مختلف ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر میں الٹے پیش جیسی آواز ہوتی ہے۔

آداب ۔
اپنی گزارشات شاید کل کسی وقت پیش کر سکوں۔

محترمی اعجاز عبید صاحب شاید یہ کہہ رہے ہیں کہ گاؤں، پاؤں، چھاؤں کی صوتیت گاؤُں، پاؤُں، چھاؤُں کی طرح ہے۔ مثال کے طور پر:
1۔ میں نے تو نہیں کہا کہ میں انگریزی گیت گاؤُں گا۔ آپ کس گاؤں کے رہنے والے ہیں؟
2۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں پیدل سفر کر پاؤُں گا۔ میرے پاؤں میں تکلیف ہے۔
3۔ بادل نے پوچھا: چھاؤُں (چھا جاؤُں)؟ پودے نے کہا: مجھے تو چھاؤں درکار ہے، بس!

توجہ فرمائیے گا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اگر تلفظ کا یہ فرق نظر انداز کردیں تو ۔۔۔ کیا یہ غزل یونہی چل جائے گی یا پھر بھی اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
 
اگر تلفظ کا یہ فرق نظر انداز کردیں تو ۔۔۔ کیا یہ غزل یونہی چل جائے گی یا پھر بھی اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
دو باتیں ہیں صاحب۔
ایک: نظرانداز کر دیں تو؟ ۔۔۔ جب شعر کہنا ہے، لفظوں سے کھیلنا ہے، کام لینا ہے تو پھر نظر انداز کچھ نہیں ہو سکتا۔
دو: چل جائے گی؟ ۔۔۔ ادب میں چلاؤ کام نہیں چلتا۔

ان دونوں باتوں کا مشترکہ حاصل: اگر ادب میں بھی گزارہ ہی کرنا ہے تو ٹھیک ہے، کرتے ہیں، دوسروں کو زحمت کیوں دیں؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں ایک اختلاف پیدا ہوا تھا، کہ محترم اعجاز عبیدصاحب نے کچھ قوافی بالکل غلط قرار دئیے اور آپ کو اس میں تامل تھا۔ سو اگر ہم آپ کی رائے مان لیں تو کیا کوئی اور غلطی باقی نہیں رہتی؟ اگر ہے تو ضرور بتائی جائے تاکہ اس کو ٹھیک کرنے پر غور کر سکوں۔
 
حضرت شاید آپ اساتذہ کی باتوں کو سمجھ نہ پائے ہوں لہٰذا اس ذیل میں کچھ نکات عرض ہیں:
  1. آپ کی غزل میں تین طرح کے قوافی پائے جارہے ہیں
  • پہلا گروہ گھٹاؤں، وفاؤں، بلاؤں
  • دوسرا گروہ استاد محترم کی پیش کی ہوئی مندرجہ ذیل مثالوں میں
1۔ میں نے تو نہیں کہا کہ میں انگریزی گیت گاؤُں گا۔
2۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں پیدل سفر کر پاؤُں گا۔
3۔ بادل نے پوچھا: چھاؤُں (چھا جاؤُں)؟
  • تیسرا گروہ استاد محترم کی پیش کی ہوئی مندرجہ ذیل مثالوں میں
1۔ آپ کس گاؤں کے رہنے والے ہیں؟
2۔ میرے پاؤں میں تکلیف ہے۔
3۔ پودے نے کہا: مجھے تو چھاؤں درکار ہے، بس!


گزارش ہے کہ استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی کے مکالمہ نمبر ۷ کو دوبارہ پڑھ لیجیے، جس کا روئے سخن ہم سمیت تمام مبتدیوں کی جانب ہے۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس سے قبل میری ذاتی رائے یہ تھی کہ قافیہ تلفظ کو اہمیت دیتا ہے، معانی کو نہیں۔ آپ نے جو تین گروہ بتائے ہیں یعنی:
  • پہلا گروہ گھٹاؤں، وفاؤں، بلاؤں
  • دوسرا گروہ استاد محترم کی پیش کی ہوئی مندرجہ ذیل مثالوں میں
1۔ میں نے تو نہیں کہا کہ میں انگریزی گیت گاؤُں گا۔
2۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں پیدل سفر کر پاؤُں گا۔
3۔ بادل نے پوچھا: چھاؤُں (چھا جاؤُں)؟
  • تیسرا گروہ استاد محترم کی پیش کی ہوئی مندرجہ ذیل مثالوں میں
1۔ آپ کس گاؤں کے رہنے والے ہیں؟
2۔ میرے پاؤں میں تکلیف ہے۔
3۔ پودے نے کہا: مجھے تو چھاؤں درکار ہے، بس!

۔۔ اس میں محض ۔۔گاؤُں، پاؤُں ، چھاؤُں (چھا جاؤُں)۔۔ میرے نزدیک غلط ہیں کیونکہ یہاں تلفظ بدل جاتا ہے جبکہ میری پوری غزل میں جو غلط قوافی ہیں (آپ کے بقول گروہ نمبر 2) ۔۔۔ وہ کہیں استعمال ہی نہیں ہوئے۔
میرے کسی بھی استعمال کردہ لفظ کا جسے میں نے بطور قافیہ استعمال کیا ہو، اس دوسرے گروہ سے کوئی تعلق نہیں نکلتا۔ لہٰذا میں نے اس کو درست سمجھا۔ اگر یہ غلط ہے تو جلد ہی اسے بدل کر پیش کر دوں گا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم خلیل نے جو تین گروہ بنائے ہیں، ان میں دوسرے اور تیسرے میں صرف یہ فرق ہے کہ ایک گروہ اسم والا ہے، اور ایک فعل والا۔ تمہاری اس غزل میں فعل والا بے شک استعمال نہیں ہوا۔ لیکن تلفظ کے لحاظ سے ان دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ تیسرے گروہ کے الفاظ بطور قوافی مکمل درست ہیں!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عزیزم خلیل نے جو تین گروہ بنائے ہیں، ان میں دوسرے اور تیسرے میں صرف یہ فرق ہے کہ ایک گروہ اسم والا ہے، اور ایک فعل والا۔ تمہاری اس غزل میں فعل والا بے شک استعمال نہیں ہوا۔ لیکن تلفظ کے لحاظ سے ان دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ تیسرے گروہ کے الفاظ بطور قوافی مکمل درست ہیں!!
میں نے فعل اور اسم والے تلفظ میں فرق محسوس توکیا ہے ۔ البتہ اسماء والے تمام الفاظ خواہ پاؤں (پیر) ہو یا چھاؤں ،گاؤں یا پھر مؤرّدشدہ جمع کے صیغے والے الفاظ وفاؤں غذاؤں سب کا تلفظ ایک ہی سنا ہے۔
اور البتہ یاد ہے بچپن میں ہم پاؤں یعنی پیر کو پاؤُں فعل والے پیش کے ساتھ کہا کرتے تھے اور کئی پرانی اردو کتب کی کتابت میں پانؤ بھی عام ملتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے کہ ان تلفظ میں زمانے اور سرحدی حدود و ثغور کے تغیرات کا اثر ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم۔
 
Top