عدم ہے عقل یوں ہراس و گماں سے بھری ہوئی - عبد الحمید عدم

ہے عقل یوں ہراس و گماں سے بھری ہوئی
جیسے ہرن کی آنکھ ازل سے ڈری ہوئی

جانے تری نگاہ نے سمجھا تھا کیا اسے
دل خوں کی ایک بوند تھی وہ بھی مری ہوئی

ہے زیست اک بسیط خلا جس کے اس طرف
پھولوں کے تخت پر ہے صراحی دھری ہوئی

انسانیت سے جس نے بشر کو گرا دیا
یا رب وہ بندگی ہوئی یہ ابتری ہوئی !

دل میں تو خون کا ایک بھی قطرہ نہ تھا عدمؔ
ہے نوکِ خار کس کے لہو سے بھری ہوئی​
عبد الحمید عدمؔ
 
Top