ہیرا منڈی کلچر کا فروغ اور ہماری خاموشی

ساجدتاج

محفلین

لگے ہاتھوں ایک واقعہ بتاتی چلوں کہ شاید بنی اسرائیل کا ہی واقعہ ہے کہ ایک بستی میں گناہوں کی کثرت کے سبب اللہ نے فرشتوں کو اسے الٹنے کا حکم دیا تو فرشتوں نے موءدبانہ عرض کی کہ یااللہ پاک وہاں تو تیرے فلاں فلاں نیک بندے بھی ہیں جو تیری عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ ہاں انکو بھی کیونکہ انہوں نے بستی والوں کو برائیوں سے روکنے کی کوشش نہیں کی واللہ اعلم و باالصواب
اس واقعے کی روشنی میں ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا کہ ہم ایمان کس درجے میں ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔!
اگر میں نے کچھ غلط لکھا ہو تو کوئی بھائی یا بہن میری تصحیح ضرور فرمائیں

آپ کی یہ بات بلکل ٹھیک ہے اور یہ واقعہ بھی بلکل سچا ہے
جب نیک بندوں کو بھی اللہ تعالی اُس بستی کو الٹ دیا کیونکہ وہ لوگوں کو بڑائی سے روکتے نہ تھے تو ہم کیسے خاموش رہ کر بچ جائیں گے۔
برائی کو اگر ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روکو اور اگر زبان سے بھی روک سکو تو اُسے دل میں بُرا سمجھو برُا دیکھ کر اُس منہ مت پھیرو بلکہ کسی نہ کسی اُس کو روکنے کی کوشش کرو
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
صورتِ حال یہ ہے کہ اس تمام صورتِ حال کو مغرب کی ثقافتی یلغار کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔۔۔ اسے بدقسمتی کہہ لیجیے کہ ہم ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ مغرب کی تہذیب و ثقافت کو بھی درآمد کرتے رہے ہیں اور اب معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ آنے والی نئی نسل مغربی تہذیب و ثقافت کی "جلوہ گری" سے شدید طور پر متاثر دکھائی دیتی ہے ۔۔۔ اپنی تہذیب اور ثقافت کو جب تک ہم میڈیا پر پیش نہیں کریں گے تب تک اس کے پنپنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔۔ میڈیا مالکان کو پیسہ بنانے سے فرصت نہیں اور ہماری سرکار کو تو بس ایک ہی مسئلہ درپیش رہتا ہے ۔۔۔ بقا کا مسئلہ ۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
شہزاد بھائی بھارت سے تو ہم کوئی ٹیکنالوجی درآمد نہیں کرتے لیکن وہاں کی ثقافت کو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
 
مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف ٹیکنالوجی درآمد کرتے ہیں لیکن اس کو اور زیادہ کارآمد بنانے کی سعی کبھی نہیں کی۔لیکن تہذیب و ثقافت کے معاملے میں یہ بات بالکل الٹ ہے ہم اسے درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اتنی" خوبصورتی" لے آتے ہیں کہ خود مغرب کو بھی رشک آتا ہے
 
پاکستان میں جس آدمی کو کوئی کام نہ ملے وہ اٹھ کر فیشن ڈیزائنر بن جاتا ہے۔اور تو اور یہ فیشن ڈیزائنرز پھر ایسا حلیہ بنا لیتے ہیں کہ آپکو انکے Gender پر شک ہونے لگتا ہے کہ موصوف "موصوف ہیں یا موصوفہ"
 
میں پہلے پہل پی۔ٹی۔وی پہ مینا بازار دیکھا کرتا تھا اس میں ہر ہفتے ایک ڈیزائنر آیا کرتا تھا۔قسم سے میں آج تک اس کشمکش میں مبتلا ہوں کہ وہ مذکر تھے یا مونث
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
شہزاد بھائی بھارت سے تو ہم کوئی ٹیکنالوجی درآمد نہیں کرتے لیکن وہاں کی ثقافت کو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
بھارت سے ہم کوئی ٹیکنالوجی کیوں درآمد کریں ۔۔۔ بھارت ہم سے بھی پہلے مغرب سے ٹیکنالوجی برآمد کر چکا ہے ۔۔۔ ہم براہ راست "فیض" کیوں نہ پائیں حضرت!
 
مجھے اس بات سے اختلاف ہے۔ منافق اور منافقت شرعى اصطلاحات ہيں اور شريعت نے منافق كى جو نشانياں بتائيں ہيں ان كے مطابق ہی كسى كو منافق كہا جا سكتا ہے ، كيا سائنس كى كسى اصطلاح كى من مانى تعريف قبول كى جا سكتى ہے؟
شريعت كى بتائى نشانيوں كے مطابق منافق بزدل ہوتا ہے اور خاموش رہتا ہے، بول پڑنا بہر حال ايمان كى نشانى ہے مہ جبين سسٹر نے واضح الفاظ ميں ايمان كى نشانياں ذكر كر دى ہيں اور اس حد تك انصار عباسى كا كالم بہرحال تعريف كا مستحق ہے۔ انہوں نے دوسرے كالم ميں اپنے نقطہ نظر سے ان اعتراضات كا جواب ديا ہے۔ہر وہ شخص جو كسى حد تك برائى كو روك رہا ہے وہ واقعى بالاتر اخلاقى حيثيت ميں ہے چاہے كوئى اس سے نفرت كرے يا چڑے۔
اس موضوع پر ايك مختصر رسالہ صفات المنافقين اردو ترجمے سميت نيٹ پر موجود ہے جس كو مطالعہ كرنا ہے كر لے۔
یہ ایک بہت ہی بھونڈا مذاق ہے جو انصار عباسی نے کیا ہے۔ سب سے پہلے اس کو اپنے ادارے والوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ ایسا نہ کرو۔ اگر وہ نہ سمجھتے تو اس کو استعفی دینا چاہیے تھا۔ کم از کم اس نے بعد والا کام تو نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ وہ (بقول اس کے) "حرام کے پیسے" کے مزے لوٹنا چاہتا ہے اور خود کو ایک بالاتر اخلاقی پوزیشن پر بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اور یہ ایمان سے زیادہ منافقت کی نشانی ہے۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بھارت سے ہم کوئی ٹیکنالوجی کیوں درآمد کریں ۔۔۔ بھارت ہم سے بھی پہلے مغرب سے ٹیکنالوجی برآمد کر چکا ہے ۔۔۔ ہم براہ راست "فیض" کیوں نہ پائیں حضرت!
یہاں برآمد کو درآمد پڑھا جائے شکریہ ۔۔۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت بھی اس معاملے میں "نقالی" میں ہی مصروف ہے ۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے اس بات سے اختلاف ہے۔ منافق اور منافقت شرعى اصطلاحات ہيں اور شريعت نے منافق كى جو نشانياں بتائيں ہيں ان كے مطابق ہی كسى كو منافق كہا جا سكتا ہے ، كيا سائنس كى كسى اصطلاح كى من مانى تعريف قبول كى جا سكتى ہے؟
شريعت كى بتائى نشانيوں كے مطابق منافق بزدل ہوتا ہے اور خاموش رہتا ہے، بول پڑنا بہر حال ايمان كى نشانى ہے مہ جبين سسٹر نے واضح الفاظ ميں ايمان كى نشانياں ذكر كر دى ہيں اور اس حد تك انصار عباسى كا كالم بہرحال تعريف كا مستحق ہے۔ انہوں نے دوسرے كالم ميں اپنے نقطہ نظر سے ان اعتراضات كا جواب ديا ہے۔ہر وہ شخص جو كسى حد تك برائى كو روك رہا ہے وہ واقعى بالاتر اخلاقى حيثيت ميں ہے چاہے كوئى اس سے نفرت كرے يا چڑے۔
اس موضوع پر ايك مختصر رسالہ صفات المنافقين اردو ترجمے سميت نيٹ پر موجود ہے جس كو مطالعہ كرنا ہے كر لے۔
منافق کے لغوی معنی ایسے شخص کے ہیں جس کے دل میں کچھ اور منہ پر کچھ۔ میرے خیالات کے مطابق تو ایسا ہی ہے۔ میں خدانخواستہ اس کے بارے میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کر رہا۔ یہ میری رائے ہے اور میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
 
منافق کے لغوی معنی ایسے شخص کے ہیں جس کے دل میں کچھ اور منہ پر کچھ۔ میرے خیالات کے مطابق تو ایسا ہی ہے۔ میں خدانخواستہ اس کے بارے میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کر رہا۔ یہ میری رائے ہے اور میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
ليكن يہ تو نيت كی ججمنٹ ہوئى ؟ كيا ہم دلوں کے رازوں سے با خبر ہونے كا دعوى كر سكتے ہيں؟اس معاملے كو اس رخ سے بھی تو ديكھا جا سكتا ہے كہ بہت بہادر آدمى ہے جس ادارے كا ملازم ہے اسی پر تنقيد كر دى ؟
انصار عباسى كى ملازمت اس معاملے كا ايك پہلو تھی كور ايشو كو نظر انداز كر كے صرف اس ايك نكتے پر توجہ مركوز كر لينا ميرا نہيں خيال درست طرز عمل ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ليكن يہ تو نيت كی ججمنٹ ہوئى ؟ كيا ہم دلوں کے رازوں سے با خبر ہونے كا دعوى كر سكتے ہيں؟اس معاملے كو اس رخ سے بھی تو ديكھا جا سكتا ہے كہ بہت بہادر آدمى ہے جس ادارے كا ملازم ہے اسی پر تنقيد كر دى ؟
انصار عباسى كى ملازمت اس معاملے كا ايك پہلو تھی كور ايشو كو نظر انداز كر كے صرف اس ايك نكتے پر توجہ مركوز كر لينا ميرا نہيں خيال درست طرز عمل ہے۔
نیت کی بات کس نے کی ہے۔ میں نے اس بات پر اپنی رائے دی ہے جو اخبار میں لکھا ہے اور جو عمل کیا ہے(یا نہیں کیا)
 
لو جی انصار عباسی کا آج شائع ہونیوالا کالم ملاحظہ ہو
پاکستان کی بے شرم سیاست کی نہ ختم ہونے والی بے شرمیوں اور جمہوریت کے نام پر عوام سے کئے جانے والے فراڈ اور دھوکوں پر لکھنے کو بہت کچھ تھا مگر اس گندگی کے برعکس میں نے سوچا کہ اپنے معاشرے کی بربادی کا سبب بننے والی ایک اور گندگی، فحاشی و عریانیت ، پر ہی مزید لکھا جائے۔ نجانے اس کا کیا سبب تھا مگر پیمرا نے چند روز قبل اپنی کاغذی کارروائی ڈالتے ہوئے اخباری اشتہار کے ذریعے ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز کو خبردار کر دیا کہ فحش اور بے ہودہ پروگرام چلانے پر سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ پیمرا کی فائل کا پیٹ تو بھر گیا مگر زمینی حقائق ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ایسا نہیں کہ پیمرا نے پہلے کبھی ایسے نوٹس جاری نہیں کئے۔ یہ تو ایک معمول ہے بلکہ کارروائی ڈالنے کے لئے چند ایک کیبل آپریٹرز کے خلاف ایکشن بھی لیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس جاری کیے جاتے ہیں مگر یہ سب ڈرامہ اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کیوں کہ زمینی حقائق بدل نہیں رہے۔ ماضی کی طرح پیمرا کے اس تازہ کاروائی کے بعد بھی کیبل پر غیرقانونی انڈین اور دوسری فحش چینلز چلانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیامتعلقہ ذمہ دار اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کیبل آپریٹرز اپنے سی ڈی چینلز کے ذریعے غیراخلاقی مواد عوام کو دکھا کر اپنی ہی نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں؟؟ پیمرا کے اس نوٹس اور کاغذی کارروائی کے بعد کیا پاکستانی ٹی وی چینلز میں دکھائے جانے والے غیراخلاقی ڈرامے، فحش گانے اور ڈانس، تفریح کے نام پر عریانیت اور دوسرا متنازعہ مواد دکھانا بند کر دیا گیا ہے؟؟ کیا دنیا بھر میں مسلمانوں اور پاکستان کی بدنامی کا سبب بننے والی ایک ”نامور“ فاحشہ کو اس کی تمام تر گندگی کے ساتھ پاکستان کی ٹی وی سکرین پر اب بھی نہیں دکھایا جا رہا؟؟ کیا غیرقانونی چینلز پرغیر قانونی اشتہارات دکھا کر روز کے کڑوڑوں نہیں کمائے جا رہے؟؟کیا یہ سچ نہیں کہ آج بھی کیبل نیٹ ورک غیرقانونی اور فحش چینلز کے ذریعے سالانہ کروڑوں اور اربوں کی اپنی حرام کمائی میں سے رشوت کے طور پر متعلقہ حکام کی بھی جیبیں بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے کارروائی محض کاغذی ہوتی ہے ؟؟ اپنی نسلوں کو تباہ کر کے پیسہ کمانے کے نشے میں دھت ایسے کردار کیا اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ سکیں گے؟؟؟
افسوس کہ اس معاملہ پر تمام سیاسی ذمہ داربولنے سے قاصر ہیں۔ پی پی پی، اے این پی، اورایم کیو ایم چھوڑیں یہاں تو اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف ، میاں نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ ن اور حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان اور اُن کی جمعیت علماء اسلام اس انتہائی اہم معاملہ پر آنکھیں بند کیے ہوے ہیں۔مگر یہ بات قابل ستائش ہے کہ کم از کم جماعت اسلامی نے فحاشی و عریانیت کے خلاف ایک مہم کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ توقع ہے کہ سول سوسائٹی اور کچھ وکلاء حضرات میڈیا، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت کے خلاف اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ بھلوال سے امان اللہ نون ایڈوکیٹ صاحب نے اس عہد کا اظہار کیا کہ وہ اور اُن کے درجنوں وکلاء دوست جلد ہی چیف جسٹس آف پاکستان کو اس معاملہ پر سو موٹو لینے کی درخواست کریں گے۔ چوں کہ اس سنگین معاملہ کو اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اُٹھائے جانے کے واضع اشارے مل رہے ہیں تو ایسے میں متعلقہ حکام کاغذی کارروائی ڈالنے میں مصروف ہیں تاکہ اگر کل کو عدالت بلائے تو وہ کہہ سکیں کہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گئے۔ درجنوں کیبل آپریٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی اور کتنے چینلز کو نوٹس بھیجے گئے۔ پی ٹی اے اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پاس بھی انٹرنیٹ پر فحش سائٹس کو روکنے کی کارروائی ڈالنے کے کئی کاغزی ثبوت ہوں گے چاہے حقیقت اس کے کتنے ہی برعکس کیوں نہ ہو۔
یہ کسے معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ گزشتہ سال پی ٹی اے کو فحش سائٹس کو روکنے کا حکم دے چکی ہے مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بہتری کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں پیمرا کو بھی پابند کیا تھا کہ کیبل پر دکھائے جانے والے غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینلز کو بند کیا جائے مگر پاکستان بھر میں ماسوائے ایک دو شہروں کے ہر قسم کی گندگی بلا روک ٹوک دکھائی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومتیں اور خصوصاً پنجاب حکومت باقی معاملوں دوسروں سے بہتر ہونے کے باوجود فحش سٹیج ڈراموں اور سینما گھروں میں دکھائی جانے والی بے ہودہ فلموں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ حال ہی میں ایک خاتون ڈاکٹر (گائناکالوجسٹ) جو پنجاب کے ایک انتہائی پسماندہ علاقہ میں اپنا فرض ادا کر رہی ہیں نے مجھے ایک ای میل بھیجی جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے کرب سے گزر رہی ہیں جس کی طرف کسی کو کوئی توجہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کہ یہ ای میل لکھتے ہوئے وہ انتہائی افسردہ، رنجیدہ اور بے بسی کے عالم میں ہیں کیونکہ کچھ دیر قبل ہی اُن کے پاس ایک غیرشادی شدہ حاملہ بچی کو لایا گیا۔ اس بچی کی ماں اُس کا حمل ضائع کرنے کی درخواست لے کر آئی مگر میں نے ایسا نہ کیا جس پر اس ماں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچی کو زہر دے کر موت کی نیند سلا دے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا کاش میں اس بچی کے چہرے اور آنکھوں پر نمایاں خوف اور مایوسی کو دیکھ سکتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ اس لڑکی کی مدد نہیں کر سکی اس لئے انہیں اپنے آپ سے نفرت محسوس ہو رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسوں کا ان کو اکثر سامنا ہوتا ہے اور آئے دن غیرشادی شدہ حاملہ لڑکیاں ان کے پاس آتی ہیں۔ جس علاقہ سے ان کا تعلق ہے وہ انتہائی پسماندہ اور بجلی جیسی سہولت سے بھی محروم ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا گلہ تھا کہ شہروں میں فحاشی و عریانیت کے خلاف جنگ کرنے والے ان پسماندہ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بچیوں پر ہونے والے اس ظلم پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے اور اُن عوامل کو اجاگر کیوں نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ ظلم و زیادتی تیزی سے ایسے علاقوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ بھی شکایت تھی کہ حکومتیں، عدالتیں، حکام، سیاسی جماعتیں اور حتیٰ کہ میڈیا دور افتادہ علاقوں کو کیوں بھلا بیٹھے ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذہبی رہنماؤں بھی ان مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں جیسا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں سب اچھا ہے اور وہاں اس نوعیت کے مسائل درپیش ہی نہیں۔ یہ خرابی تو شہباز شریف کے پنجاب کی ہے جہاں فحاشی و عریانیت کا کھیل سب سے زیادہ اور بلاخوف و خطر کھیلا جا رہا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب خدارا اس طرف بھی کچھ توجہ فرمائیے۔
 

ابن عادل

محفلین
میں اہل محفل سے ایک التماس کروں گا کہ اپنا ایک مراسلہ جو وہ یہاں پوسٹ کررہے ہیں اسی مراسلے کو پیمرا کو بھی میل کردیں ۔ تاکہ ہم باہمی گفت وشنید اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اتفاق رائے کو متعلقہ لوگوں تک بھی پہنچادیں ۔ اور ازراہ کرم اس بات سے قطع نظر کہ اس سے ہوگا کیا ! ہوگا تو وہی جو منظور خدا ہوگا ۔ لیکن ہم کسی حد تک چاہے وہ بہت معمولی ہی کیوں نہ ہو اپنی ذمہ داری سے تو عہدہ برآ ہوں گے ۔
انصار عباسی کے حوالے سے بعض دوستوں نے اعتراض کیا ۔ میں ان کے اعتراض کو تسلیم کرتا ہوں اور پہلے پہل ہم نے بھی یہی سوچا تھا ۔ لیکن جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ اگر انصار عباسی ایک بڑے اخباری گروپ میں رہ کر اور جنگ میں کالم لکھ کر توجہ نہ دلاتے تو کم از کم میرے جیسے ٹی وی نہ دیکھنے والے کو تو سنگینی کا احساس نہ ہوتا ۔ بتائے کیا روزنامہ اسلام کے کسی کالم نگار پر بھی اتنی ہی توجہ ملتی یا وہ اتنے لوگوں کی پہنچ میں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم پاکستان میں رہ کر پاکستان پر بہت سے اعتراض کرتے ہیں مقصود پاکستان کی برائے نہیں بلکہ اصلاح ہوتی ہے ۔ میں ذاتی طور پر انصار عباسی صاحب کو اس احتجاج پر لائق تحسین سمجھتا ہوں جو انہوں نے اپنے موقع اور مقام پر کی ۔
میں دوستوں سے گذارش کروں گا کہ وہ ان کا دوسرا اور تیسرا کالم بھی ضرور ملاحظہ فرمائیں
کیا میڈیا احتساب سے بالاتر ہے ؟
کاغذی کاروائی اور زمینی حقائق۔
 
Top