ہو گذر گلشن میں گر اُس غیرتِ شمشاد کا۔ شمس النساء بیگم شرمؔ

ہو گذر گلشن میں گر اُس غیرتِ شمشاد کا
غنچے چٹکیں باغ میں غل ہو مبارک باد کا

اے بتو اس آہِ سوزاں سے مری ڈرتے رہو
ہے خدا کا قہر ہر شعلہ مری فریاد کا

تیرِ مژگاں کا ہدف ہے آہ بھی کرتا نہیں
دل مرا پتھر ہے سینہ ہے مرا فولاد کا

ہو ملائک سے فزوں کیونکر نہ اُن کا مرتبہ
دھیان جن بندوں کو رہتا ہے خدا کی یاد کا

شعر جب کہتا ہوں میں تو ٹکڑے ہوتا ہے جگر
یاد آتا ہے مجھے لطف و کرم استاد کا

داغ دل کے سب چمک اٹھے ہیں ذروں کی طرح
یہ اثر دیکھا ہے او خورشید تیری یاد کا

اُنس ہے غیروں سے تجھ کو مجھ سے ہے طرزِ جفا
میں گلہ کس سے کروں ظالم تری بیداد کا

بلبلو اتنا نہ پھولو فصلِ گل دو روز ہے
ایک دن کنجِ قفس یا دام ہے صیاد کا

کہتے ہیں شیریں کا مرنا سن کے فوراً مر گیا
واہ کیا ثابت قدم تھا عشق میں فرہاد کا

جس کا مرغِ دل پھنسا اس بیچ سے نکلا نہ پھر
کاکلِ پیچاں نہیں یہ دام ہے صیاد ہے

تابعِ فرماں ہوں میں جو کچھ کہو لاؤں بجا
منتظر رہتا ہوں ہر دم آپ کے ارشاد کا

تیرِ مژگاں پڑتے ہیں مطلق نہیں ہوتا اثر
ہے تعجب بن گیا سینہ مرا فولاد کا

کیوں نہ اپنے خانۂ دل کو کہوں میں خانہ باغ
ہے تصور جلوہ گر اُس غیرتِ شمشاد کا

میرے ہر رگ میں یہ سوزش ہے اگر آئے قریب
ہے یقیں منہ سوکھ جائے نشترِ فصاد کا

کیوں نہ ہو دعویٰ خدائی کا بتِ کافر تجھے
تیرے کوچے میں ہے عالم گلشنِ شداد کا

شعر خواجہ کے اگر زیرِ زمیں سن لے کلیم
چونک کر کہنے لگے ہے یہ کلام استاد کا

بیڑیاں پہنا کے مجھ کو خود وہ دیوانہ ہوا
جو مرا زیور تھا زیور ہو گیا حداد کا

رک کے چلتا ہے گلے پر دیکھنا شوخی ذرا
پھر گیا ہے مجھ سے خنجر اُس ستم ایجاد کا

مر گئے اے شرم اپنے دل میں کٹ کٹ کر رقیب
لے لیا بوسہ جو تیغِ ابروئے جلاد کا​
 
Top