ہو سوزِغم یا سازِطرب راز نہیں رہتا غزل نمبر 30 برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب​
دن راز نہیں چُھپتا شب راز نہیں رہتا
ہمراز ہو جب کوئی تو سب راز نہیں رہتا

اک بات بتاتا ہوں کسی اور سے نہ کہنا
جب راز بتا دیں ہم تب راز نہیں رہتا

جب زینتِ محفل کوئی بن جائے یہاں راز
پھر وہ خبر بن جاتی ہے جب راز نہیں رہتا

تم راز کی باتیں ہمیں یہ سوچ کے بتانا
پہلےتو ہم چھپاتے تھے اب راز نہیں رہتا

کس بات پہ خفا ہو کیوں راز چھپاتے ہو
تم ہی مجھے بتاؤ کب راز نہیں رہتا

جب بات نکلتی ہے تو دور تک جاتی ہے
آجائے اگر زیرِ لب راز نہیں رہتا

ہر بار ہی الفت میں ہم ناکام ہوئے ہیں
دل ٹوٹنے کا یہ ہے سبب "راز نہیں رہتا"

ہر بزم میں ملیں گے یہ رازکشا چہرے
ہو سوزِغم یا سازِطرب راز نہیں رہتا

جو لوگ یقیں رکھتے ہیں ہمراز بناتے ہیں
یہ بات ہے خلافِ ادب "راز نہیں رہتا"

پی کے یہاں مدہوش سچ بولتے ہیں لوگ
میخانے پہ کُتبہ تھا نصب "راز نہیں رہتا"

دنیا جتن کرتی ہے کہ بس راز رہ جائے
لیکن ہے بات کتنی عجب راز نہیں رہتا

جس قدر بھی خفیہ ہو معلوم تو ہونا ہے
یہ بات ہے توجہ طلب راز نہیں رہتا

دل خوش ہوا پڑھ کر اسے ہر شعر لاجواب
کیا غزل ہے واہ خوب غضب"راز نہیں رہتا"

شارؔق مقامِ عشق اک ایسا ہے فنا فی اللہ
جب یہ مقام آجائے تو رب راز نہیں رہتا
 

الف عین

لائبریرین
قریب ترین بحر ہو گی
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
دو ٹکڑوں میں منقسم بحر، جس میں پہلا، اور چوتھا یا شاید کچھ اور بھی ہون، مصرعے فٹ ہوتے ہیں۔ اس بحر میں فٹ کر دو تو اسے غزل کا نام دیا جا سکے
 
Top