ہوائے شام ۔ ایوب خاور

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہوائے شام چلنے کے لیے بے تاب ہے جاناں
بس اب یہ آخری ہچکی ہے، اپنے زانوؤں پر میرا سر رکھ لو
مری آنکھوں کے اوپر اپنے ہاتھوں سے
ذرا اِن زرد پلکوں کے شکستہ شامیانے کو گرا دو اور
مرے ماتھے پہ بوسہ دو
مرے ماتھے پہ اُن ہونٹوں کا بوسہ دو
کہ جن کے لمس کی شبنم سے میرے ہر مشامِ جاں
میں کلیاں سی چٹکتی تھیں
مرے اِن سرد ہاتھوں میں
تم اپنے گرم ہاتھوں کی شفق بھردو
مرے اِن برف ہونٹوں میں
ذرا سی دیر کو گُل کار آنکھوں کی دھنک بھردو
ہوائے شام چلنے کے لیے بے تاب ہے جاناں

گلِ ناخن کی نرمی سے مرے سینے کو چیرا دو
اب اِس کھلتے ہوئے سینے کے اندر جھانک کر دیکھو
جہاں دل کے پیالے میں
بہت دن سے بہت سے دُکھ بچا کر مَیں نے رکھّے ہیں
تم اُن میں میرے تازہ خوابچوں کے چند پتے ڈال کر کچھ دیر اپنی آتشِ رخسار پر رکھو
مجھے پھر غسل دو ایسے
کہ میرے منجمد چہرے پہ جتنی بھی
تمھارے لمس کی گل کاریاں ہیں اُن میں اپنی مرمریں پوروں کی حدّت تک سمو ڈالو
چلو اب یوں کرو میرے کھلے سینے کو سی دو اَن چھوئے آنچل کے تاروں سے
ہوائے شام چلنے کے لیے بے تاب ہے جاناں

تمہیں معلوم ہے میری تمھاری سُرمئی شامیں ہمیشہ ایک انجانی
اداسی سے سخن کرتی رہی ہیں، آج تم مجھ کو
اُسی بے دام و بے مایہ اداسی کا کفن دو جس
کے ہر ہر تار پر اب تک تمھارا نام لکھا ہے
ہوائے شام چلنے کے لیے بے تاب ہے جاناں

کفن کی ڈوریاں کس دو مرے چہرے کو کعبے کی طرف کردو
بہت مصروف دنیا کے بہت مصروف لوگوں سے کہو آئیں
صفیں باندھیں، پڑھیں تکبیر میرے خوابچے اور ہاتھ اُٹھائیں آرزوئیں، سرجھکائیں میری نظموں کی
تمھارے حُسنِ بے انداز ہ جیسی خو برُو سطریں دعائے مغفرت ہونے کو اب کچھ دیر باقی ہے
مرے سینے پہ رکھی جانے والی سل
تراشی جارہی ہے، آب و گل میں میری ساری زندگی کے دن
ملائے جارہے ہیں، ایک دہشت ناک سنّاٹا
ہے جس میں گورکن کے تیشۂ بد رنگ کی آواز اور مصروف دنیا کے
بہت مصروف لوگوں کی پلٹ کر دُور جاتی آہٹوں کی گونج شامل ہے
مری میّت کو مٹّی دینے والوں میں
مرے کچھ خوابچے، کچھ آرزوئیں اور کچھ نظموں کی سطریں رہ گئی ہیں، شام گہری ہونے والی ہے
کفن سرکا کے بس اب آخری بار اِک
ذرا اپنے لبِ نم ساز سے جاناں!
مری میّت کے ماتھے اور آنکھوں اورہونٹوں پر
دوبارہ ایسے لمحوں کے
ستارے ٹانک دو جن کی کرامت روزِ محشر
تک
لحد کے سرد اندھیروں میں مہکتی روشنی بھردے

 
Top