ہنگو مدرسے پر ڈرون حملہ، 8 افراد ہلاک

سید ذیشان

محفلین
ربط

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل میں واقع ایک مدرسے پر امریکی ڈرون حملے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلا امریکی ڈرون حملہ ہے جو پاکستان کے قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سے باہر کیا گیا ہے۔

پاکستان کے سرکاری ریڈیو کے مطابق ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد آٹھ ہے۔

کلِک’ڈرون حملے مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘

مقامی اور پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کو علی الصبح چار بجے کے قریب ڈرون طیارے سے پارہ چنار روڑ پر واقع مدرسہ مفتاح القرآن پر دو میزائل داغے گئے۔

حملے میں مدرسے کے تین طالب علم اور دو اساتذہ ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ایک شخص زخمی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ترجمان شوکت یوسفزئی نے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے ڈرون حملے میں پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مدرسے میں طالب علم رہائش پذیر نہیں تھے اور حملے کے وقت بہت کم لوگ موجود تھے۔

ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے دو اساتذہ احمد اللہ اور حماد اللہ کا تعلق افغانستان سے بتایا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق حملے میں نشانہ بننے والے مدرسے کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے بتایا جاتا ہے۔اس مدرسے کے قریب ہی لڑکیوں کا کالج اور ایک پاور ہاؤس واقع ہے۔

اطلاعات کے مطابق طالبان نے مدرسے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

تحصیل ٹل کی سرحدیں تین قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی سے ملتی ہیں۔

خیال رہے کہ ایک روز پہلے ہی بدھ کو وزیراعظم نواز شریف کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کے مطابق امریکہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہیں کیے جائیں گے۔

مشیر خارجہ کے مطابق ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے مذاکرات کا عمل متاثر ہوا ہے۔

چند روز پہلے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ جب تک ڈرون حملے نہیں رکیں گے اُس وقت تک طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھےگا۔

امریکہ کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سے پہلے گذشتہ ماہ وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ کے دورے کے موقع پر ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان سے امن مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے اور وہ امید کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ یہ مذاکرات آئین کے دائرۂ کار کے اندر ہوں۔

تاہم اس بیان کے اگلے روز ہی کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے مذاکرات کے آغاز کی تردید کی گئی تھی اور ایک روز بعد ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارے گئے۔

پاکستان ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے جبکہ امریکہ انھیں شدت پسندی کے خلاف موثر ہتھیار قرار دیتا ہے

اس وقت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو طالبان سے بات چیت کے عمل پر شب خون مارنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ امریکی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران حکیم اللہ محسود کو نشانہ نہ بنانے کی تجویز پر اتفاق نہیں کیا تھا۔

پاکستان ماضی میں بھی ڈرون حملوں پر امریکہ سے احتجاج کر چکا ہے اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر بھی اسلام آباد میں امریکی سفیر کو طلب کر کے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کرنے والے ڈرون حملوں پر امریکہ سے احتجاج کیا تھا۔

ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف رہا ہے کہ یہ ملکی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہیں اور ان سے شدت پسندی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کا موقف ہے کہ ڈرون حملے شدت پسندی کے خلاف جنگ میں موثر ہتھیار ہیں اور ان کا استعمال قانونی ہے
 
آخری تدوین:
Top