ہنوز جوہر دُوراست کہ ہنوز ڈُو مور است

بجلی چوری کے سب راز و نیاز سکھا کر بلوں کے خوف سے آزاد کرانے والے میٹر ریڈروں کی بدولت ائر کنڈیشنڈ گھروں، یخ بستہ دفاتراور ٹھنڈی گاڑیوں نے ہماری قوت مدافعت اور عادت کچھ اس قدر بگاڑ دی ہے کہ گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت میںلوڈشیڈنگ کاعذاب شامل ہو جائے تو ہماری خواتین ِ خانہ آباد کیلئے چولہے پر دو روٹیاں پکانا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا اور اگر گیس پریشر کم ہو تو یہ ان کیلئے کچن سے فرار کاایک معقول بہانہ بھی بن جاتا ہے۔ سو ایسے ہی حالات میں آج ہم بھی روٹیاں لگوانے چار سڑکیں پار بابے سراج کے تندورپرجا پہنچے جہاں پیٹ کا دوزخ بھرنے والے مزدوروں کے بیچ اسامہ کی شہادت یا ہلاکت پر تپتے تندور کی طرح گرما گرم عوامی بحث جاری تھی کہ بابا سراج ایک لمحے کیلئے رکا ماتھے کے پسینے سے تندور میں تڑکا لگا تے ہوئے بولا، بابوجی ایتھے آٹے کاریٹ بڑھ جاوے یا لوڈشیدنگ میں گرمی کا بخار چڑھے لوگ کہتے ہیں یہ سب امریکہ کا کیا کرایا ہے اوراگر امریکہ یا کسی ولائتی ملک میں کوئی گڑبڑ ہو یا کسی گورے کا کتا بیمار پڑجائے تو امریکی کہتے تھے سب اسامہ جی نے کروایا ہے، بابو جی امریکہ اسی بہانے سے ایبٹ آباد تک تو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہمارا ایٹم بموں والا کہوٹہ کچھ زیادہ دور نہیں ، اللہ سوہنا کرے کوئی پکے مسلمان ہمارے لیڈروں کو سمجھاویں تو ایناں نوں کوئی عقل آ جاوے۔ میں اس ساٹھ سالہ بوڑھے نان بائی کی ٹوٹی پھوٹی اردو میں باتیں سنتا ہوا ، پسینے میں شرابوراس کے تپتے ہوئے سرخ چہرے پر پڑی جھریوں میں گئے وقت کی تلخیاں اور اپنی دھرتی کیلئے چھپا دکھ پڑھتا ہوا کسی گہری سوچ میں کھو گیا اور میرے زمانہءطالب علمی کا 1976- 77کا وہ جنونی دور تیزی سے میری یادوں کے پردے پر کسی ڈاکومنٹری فلم کی طرح چلنے لگا جب میں خودبھی ان افغان اور عرب نوجوانوں کے شانہ بشانہ روسیوں کے خلاف جہاد میں امریکی اسلحہ اٹھائے ہوئے بر سر پیکار،تمام دنیا سے آئے ہوئے مسلم مجاہدین کی طرح اس اسامہ بن لادن کو اپنا ہیرو مانتا تھا ۔ یہ وہی اسامہ تھا جسے اس وقت کے اسلامی مجاہدین کے سرپرست ِ اعلی امریکہ بہادر نے عرب دیس سے بلوا کر افغان جنگجو سردار عبدللہ عزام کے ساتھ مجاہدین کا سالار ِ اعلی بنایا تھا ، صدر ریگن اور وائٹ ہاوس انتطامیہ اسے افغانستان کے مظلوم عوام کے نجات دہندہ اور انسانیت کے خدائی خدمت گار کا درجہ دیتی تھی، ہالی وڈ ان مجاہدین پر کروڑوں ڈالرز خرچ کرکے جنگی فلمیں بنا رہا تھا اور ہرپاکستانی اور عرب نوجوان ، مجاہدین کے امریکی ساتھی ماڈل فلمی ہیروجان ریمبو جیسابننے کے خواب دیکھتا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سب کرتا دھرتا ، مغربی اور امریکی میڈیا اسامہ بن لادن کی ڈیزائین کردہ زمینی سرنگوں اور جنگی نوعیت کے تعمیری کاموں کی کسی مقدس آسمانی فرشتے کے کارناموں کی طرح والہانہ انداز میں تشہیر کرتا تھا۔ روس کے پاو اکھڑنے کے بعد1984 میںاسامہ بن لادن اور عبدللہ عزام کی طرف سے مکتب الخدمت بنائے جانے سے لیکر1988میں مصر میںقائم ہونی والی تنظیم اسلامی جہاد بننے تک کسی امریکی کو اسامہ کی ان حساس اور عسکری نوعیت کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر اس کے بعد نوے کی دہائی کے آغاز میں عراق کویت جنگی ڈرامے میں امریکی کردار کے بعداسامہ کے خلاف سعودی شاہوں کی صدائے اعتراض کیوں بلند ہوئی اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کا من پسند ، چہیتا عسکری ہیرو اور مظلوموں کا نجات دہندہ اسامہ کیونکر اسلامی دہشت گردوں کا لیڈر قرار پایا، اس کا جواب آج تک نہ تومغرب کے نام نہاد مفکر ین دے پائے ہیں اور نہ کوئی امریکی دانشوروں کا ٹولہ۔ وہ سوڈان میں ہونے والی جہادی سرگرمیاں ہوں ، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بم دھماکے ہوں یا جنگ بوسنیا میں مسلم کش قتل ِ عام میں دوغلے سامراجی کردار کے خلاف مسلم مزاحمت کی داستان ِ خونچکاں، تاریخ کے ہر ورقے پر امریکہ کی دوغلی مسلم کش پالیسی سیاہ حروف میں لکھی ہے۔ آج ایک عام آدمی بھی یہ سوال کرتا ہے کہ وہ کون سے جادوئی حالات اور پر اسرارواقعات سے جڑے جادوگری کردارتھے جن کی غیبی مدد سے اسامہ سلیمانی ٹوپی پہنے 1996میں دوبارہ جلال آباد،افغانستان جا پہنچامگرسب امریکی اور مغربی ایجنسیاں بے خبر رہیں جبکہ اس وقت کے امریکی حکام اور تمام مغربی خفیہ اداروں کا دعوی تھا کہ گولڈمیہور ہوٹل ، ایڈنز پر حملوں اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بم دھماکوں میں ملوث ہر مجرم اور اس کے نیٹ ورک کی نقل و حرکت کی مکمل ہسٹری ان کے علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسامہ کی افغانستان میں دوبارہ آمد سے لیکر نائن الیون کے حملوں تک امریکہ کے حساس ترین اور دور مار کیمروں سے لیس سیٹیلائٹس کی کوریج جام تھی جو امریکہ کے فول پروف دفاعی مونیٹرنگ سسٹم کے ہوتے ہوئے بھی القائدہ نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دے دیا؟ دس سال گذرجانے کے باجود آج تک کوئی زی شعور نائن الیون کے واقعات کی امریکی تحقیقاتی رپورٹ ماننے کیلئے تیار نہیں، آج بھی دنیا گوانٹا نامو اور ابوغریب کے امریکی ٹارچر سیلز میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد اور شیطانی مظالم سے جڑے ہوئے دہشت گردی کے افسانوں کی پر اسراریت کے بارے سوال کرتی ہے اور پھر عقل انسانی تھک ہار کر اس بات پر یقین کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کویت عراق جنگ سے لیکر ورلڈ ٹریڈ سینٹر دھماکوں تک اور حسنی مبارک کے قتل کی سازش سے لیکر افغانستان پر امریکی حملے ، پاکستان میں بلیک واٹرز کی کاروایﺅں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جڑے ہر کردار تک کی ہر داستان ِ الف لیلیٰ ایک امریکی انجینئرڈ مسلم کش ڈرامہ اور عالم اسلام کی سرکوبی کے بہانے کے سوا کچھ اور نہیں اور خدشہ ہے کہ ان حالات سے زبردستی جوڑی گئی ہر اگلی کہانی بھی قتل مسلم کیلئے وائٹ ہاو ¿س میں تیار کردہ ایک خود ساختہ بہانہ ہو گی۔ آج ایک عام آدمی بھی پوچھتا ہے کہ 2004میں گردوں کی بیماری کے آخری سٹیج پر قرار دیا گیا وہ مریض جس کے بارے مغربی اور امریکی ایجنسیاں اور ماہرین طب یہ سرٹیفیکیٹ دے چکے تھے کہ وہ ڈائلاسس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کی ممکنہ بقیہ زندگی ایک دو سال سے زیادہ ہر گز ممکن نہیں، کیسے 2011تک مسلسل سفر میں بھی ڈائلاسس اور جدید ترین طبعی امداد کی سہولت کے بنازندہ رہا اور حکیم افلاطون و جالینوس جیسے طلسماتی طبیبوں کی وہ کون سی ٹیم تھی جوکسی خواجہ خضر کی مددسے اسے آبِ حیات پلا پلا کر زندہ رکھے ہوئے تھی؟ کچھ اہل خرد اور تاریخ کا علم رکھنے والے یہ بھی جانتے ہوں گے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے برطانوی وزیر اعظم چرچل پر قاتلانہ حملوں کی لاتعداد کوششیں ہوئیں اور ایک دفعہ چرچل کے قتل کی خبر بھی نشر ہوئی مگر بعد میں راز کھلا کہ برطانوی سرجنوں نے پلاسٹک سرجری کی مدد سے سر چرچل کے کئی ڈپلیکیٹ ڈیزائن کر رکھے تھے سو اگر1940 میں چرچل کا ڈمی ڈپلیکیٹ بنانا ممکن تھا تو آج کے جدید دورمیں اسامہ بن لادن کا ڈمی ڈپلیکیٹ بنانا کیسے ناممکن ہے۔ آج دو دن گذر جانے کے بعد بھی وائٹ ہاو ¿س کی جانب سے بدلتی ہوئی کہانیاں، امریکی اور مغربی عہدیداروں کے متضاد بیانات، تمام مغربی اور ہندو میڈیا کے افواج پاکستان اور خفیہ یجنسیوں کے بارے شرمناک پراپیگنڈے از خودجس سازش کو بے نقاب کر رہے ہیں اور امریکی سپیشل فورسز کی پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کے اندر دور مار اور کہوٹہ کے نزدیک تک پہنچ کر کاروائی جس اگلے ممکنہ شیطانی اقدام کے بارے الارم بجا کر آگاہ کر رہی ہے وہ تو تندور پر روٹیاں لگانے والا بابا سراج بھی جانتا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ بین الاقوامی سازشوں سے جڑے وہ تمام خدشات اورخطرات ہمارے حکمرانوں، حساس اداروں او رپاکستان کے دفاعی اثاثوں اورایٹمی تنصیبات کی محافظ بہادر افواج پاکستان کی ذمہ دار اعلی قیادت کے علم میں نہ ہوں۔ لیکن پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھنے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے، چلیں آپ ہی بتا دیجئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اترے ہیں مرے دیس صلیبوں کے درندے
بند آنکھیں کئے بیٹھے کبوتر ھیں ابھی تک

گل رنگ ہوئی دار کہ یاران ِ سحر خیز
درویش سے منصور و قلندر ہیں ابھی تک
 
Top