ہندوستان : الکشن نتائج 2009ء

حیدرآبادی

محفلین
چار محاذی جنگ


یو-پی-اے (United Progressive Alliance)

سیاسی جماعتیں :

کانگریس ، ڈی-ایم-کے ، راشٹریہ جنتا دل ، این-سی-پی ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ ، اور دیگر 5 جماعتیں


این-ڈی-اے (National Democratic Alliance)

سیاسی جماعتیں :

بی-جے-پی ، شیو سینا ، جنتا دل ، اکالی دل اور دیگر 9 جماعتیں


تھرڈ فرنٹ (تیسرا محاذ) (Third Front / United National Progressive Alliance)

تلگو دیشم ، انا ڈی-ایم-کے ، بہوجن سماج پارٹی ، جنتا دل (سیکولر) ، کمیونسٹ پارٹی (دونوں) اور دیگر 5 جماعتیں


فورتھ فرنٹ (چوتھا محاذ) (Fourth Front)

سماج وادی پارٹی ، راشٹریہ جنتا دل اور لوک جن شکتی پارٹی


===

تازہ ترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بمطابق : ہندوستانی معیاری وقت - 3:20 دوپہر


یو-پی-اے = فتح : 99 ، برتری:159

این-ڈی-اے = فتح : 61 ، برتری:103

تیسرا محاذ = فتح : 19 ، برتری:60

چوتھا محاذ = فتح : 4 ، برتری:22


متفرق نتائج (برتری) :

کانگریس = فتح : 40 ، برتری:157

بی-جے-پی = فتح : 31 ، برتری:88


** آندھراپردیش اسمبلی کے لئے میگا فلمی ہیرو چرنجیوی کو دو میں سے ایک حلقے میں شکست ہو گئی۔ کانگریس کی اوشا رانی نے پالاکولو میں چرنجیوی کو شکست دی ہے۔

** حیدرآباد پارلیمانی حلقے کے لئے مجلس کے اسد الدین اویسی ایک لاکھ ووٹوں کی برتری سے آگے ہیں۔

** آندھرا پردیش اسمبلی کے لئے واحد مسلم سیاسی جماعت مجلس اتحاد المسلمین 8 میں سے 7 اسمبلی سیٹوں کے لئے نمایاں برتری کے ساتھ آگے ہے۔

** بی-جے-پی نے قبول کیا کہ نتائج اس کی توقعات کے برخلاف ہیں۔

** بی-جے-پی کے ورون گاندھی پیلی بہت سے ایک لاکھ ووٹوں کی برتری سے آگے ہیں۔

** کانگریس کے (سابق کرکٹر) اظہرالدین مرادآباد سے نمایاں برتری سے آگے ہیں۔
 

حیدرآبادی

محفلین
ممتا بنرجی کی "ترنمول کانگریس" نے بایاں محاذ کو ششدر کر دیا۔
مغربی بنگال کے 42 پارلیمانی حلقہ جات میں سے 24 پر ترنمول کانگریس (مع کانگریس آئی) کی برتری جاری ہے۔
بایاں محاذ کو 16 پارلیمانی حلقوں میں برتری ملی ہے۔
واضح رہے کہ مغربی بنگال اسمبلی پر بایاں محاذ کی مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
تازہ ترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بمطابق : ہندوستانی معیاری وقت - 4:40 دوپہر

حیدرآباد پارلیمانی حلقے کی وقار کی سیٹ کے لیے مجلس اتحاد المسلمین کے بیرسٹر اسد الدین اویسی نے مسلسل دوسری معیاد کے لئے شاندار فتح حاصل کی۔

واضح رہے کہ حیدرآباد کی واحد مسلم سیاسی جماعت "مجلس اتحاد المسلمین" کے خلاف خود مسلمانوں کے ایک بااثر طبقے نے ریشہ دوانیاں شروع کی تھیں اور معروف اردو روزنامہ "سیاست" کے مدیر محترم زاہد علی خان نے "تلگو دیشم" کے ٹکٹ پر اسد الدین اویسی کا مقابلہ کیا۔ لیکن ۔۔۔ حیدرآباد کے غیور اور باشعور مسلمانوں نے بیرسٹر اویسی کی شاندار فتح کے ساتھ جتا دیا کہ ملت کے اتحاد میں انتشار اسے قبول نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گویا کہ کانگریس حکومت میں ہی رہے گی۔ ہندوستانی دوستوں سے ایک سوال کہ انڈیا کہ اگلے متوقع وزیراعظم کون ہیں۔
 

غازی عثمان

محفلین
این-ڈی-اے (national democratic alliance)

سیاسی جماعتیں :

بی-جے-پی ، شیو سینا ، جنتا دل ، اکالی دل اور دیگر 9 جماعتیں

نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اس محاز کو یہ نام تو نہیں جچتا،، کوئی اور نام رکھا جائے ۔،،،،،،،،،،،۔۔۔

جیسے نیشنل فاشسٹ فرنٹ وغیرہ


اہلیان محفل کا کیا خیال ہے۔
 
وارث بھائی مجھ میں سیاسی بیداری صفر کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم ہے اس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ مجھے ان نتائج کا علم بھی ابھی ہوا ہے وہ بھی اس دھاگے میں آ کر۔ ویسے کانگریس حکومت میں رہی تو غالباً من موہن سنگھ کو ہی دوبارہ وزیر اعظم منتخب کیا جائے گا۔
 

زین

لائبریرین
جی وارث بھائی، انڈین میڈیا کے مطابق آئندہ وزیراعظم من موہن سنگھ ہی رہیں‌گے، من موہن سنگھ آج مستعفی ہوکر منگل کو دوبارہ وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھائیں ‌گے
 

عندلیب

محفلین
ہمارے آندھرا پردیش کے اسمبلی الکشن میں کانگریس نے واضح برتری حاصل کی ہے۔ لہذا نئی ریاستی حکومت موجودہ وزیر اعلیٰ ، ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی ہی بنائیں‌ گے۔
معروف تلگو اداکار چرنجیوی کی پارٹی نے شکست کا بہت برا منہ دیکھا ہے۔ تلگو دیشم کی بھی امیدیں ڈوب گئی ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ مجلس اتحاد المسلمین نے چونکایا ہے۔ سمجھا جا رہا تھا کہ 8 نشستوں میں سے تین تا چار حاصل ہوں‌ گی۔ کیونکہ مجلس پر ایک خاص خاندان (اویسی خاندان( کی اجارہداری کو ہدف ملامت بنایا جا رہا تھا اور اس کے خلاف خود حیدرآباد کے کچھ نامور مسلمانوں کے گروپ پروپگنڈہ کررہے تھے۔ مگر مجلس نے 8 میں سے 7 نشستیں حاصل کیں جو کہ برسوں بعد مجلس کی سب سے بڑی فتح سمجھی جا رہی ہے۔
 

حیدرآبادی

محفلین
کانگریس کے اعلیٰ حلقوں کے مطابق من موہن سنگھ ہی وزارت عظمیٰ کا عہدہ دوبارہ سنبھالیں گے۔
تین دہے قبل اندرا گاندھی کے دور کے بعد موجودہ وزیراعظم نے ہی یہ ریکارڈ دوبارہ قائم کیا ہے۔ پانچ سالہ حکومت کے بعد دوبارہ حکومت کے لئے خود کا اور خود کی پارٹی کا منتخب کیا جانا ایک ریکارڈ ہے۔

یو-پی-اے کی غیر متوقع فتح ایک معنوں میں بی-جے-پی کے قدآور قائد لال کرشن اڈوانی کے 6 دہوں پر مبنی سیاسی کیرئر کے خاتمے کی بھی نشانی ہے۔ اڈوانی جی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اب حزب مخالف کے لیڈر کے فرائض نبھانے کا سلسلہ جاری نہیں رکھیں گے۔
بایاں محاذ نے شرمناک شکست اٹھائی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اس کے 59 نمائیندے تھے لیکن اس الکشن میں اسے صرف 24 نشستوں پر اسے اکتفا کرنا پڑا ہے۔
 

عثمان رضا

محفلین
روزنامہ جنگ

up65.gif
 
Top