فراز ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

ہم ہیں ظلمت میں کہ اُبھرا نہیں خورشید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردید اب کے

کون سنتا تھا حدیثِ غمِ دل یوں تو مگر
ہم نے چھیڑی ہے ترے نام سے تمہید اب کے

پی گئے رند کہ نایاب ہے صہبا ورنہ
زہر تھی محتسبِ شہر کی تنقید اب کے

تشنگی وجہِ جنوں ہے تو چلو یوں ہی سہی
کوئی سنگ آئے سرِ ساغرِ جمشید اب کے

اک زمانے سے نہ روئے ہیں نہ جاں تڑپی ہے
دل پہ لازم ہے ترے درد کی تجدید اب کے

قصۂ اہلِ وفا جانے کہاں تک پہنچے
منزلِ دار و رسن ٹھہری ہے تمہید اب کے

لہو روئے ہیں تو گلنار شفق پھوٹے گی
آنسو بوئے ہیں تو ہم کاٹیں گے خورشید اب کے

ہم نے یہ سوچ کے جاں دی ہے محبت میں فراز
بوالہوس کرتے ہیں کس رنگ میں تقلید اب کے​
 
Top