"ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن"

عندلیب

محفلین
"ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن"
عورت، مکان کو گھر بناتی ہے۔ ایک ایسا گھر جہاں عورت کا وجود شوہر کے لیے دوست، ہمراز اور ہمدرد کا ہے تو بچوں کے لیے ایک ایسا منبع جس سے وہ تمام عمر سیراب ہوا کرتے ہیں، وہی عورت بزرگوں کی چھوٹی ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ ہے تو نو عمروں کی نگران اور محافظ۔ اسی کے دم سے چار دیورای میں ایک ایسی کائنات پروان چڑھتی ہے ، جس کی بنیاد میں محبت و خلوص، اتحاد و اتفاق کی آمیزش ہوا کرتی ہے۔ درودیوار میں امن و سکون رچا بسا ہوتا ہے۔ زندگی کڑی دھوپ سے گزر رہی ہو یا چھاؤں میں بسر ہو رہی ہو، ایک دوسرے کی رفاقت میں ہر مرحلہ طئے ہو ہی جاتا ہے۔ عورت مکان کے ساتھ ساتھ مکینوں کےلیے ایک نا گزیز ہستی ہوا کرتی ہے، اس بات کا احساس خود اسے بھی ہونا چاہیے اور اس کے متعلقین کو بھی تاکہ گھر ، گھر ہی بنا رہے کوئی ، اجڑا دیار نہیں۔
ہر روز جرائم و حادثات کے کالم میں خواتین کی خود کشی و خودسوزی کے واقعات پر مبنی خبریں شائع ہوتی ہیں ۔
گھر کے ہر فرد کے یے "سانسوں کے تسلسل" جیسی حیثیت رکھنے والا وجود یوں ساتھ چھوڑ دے تو گھر پُربہار گلشن کے بجائے خزاں رسیدہ چمن بن کر رہ جاتا ہے۔
آخر خواتین میں خود کشی کا رجحان اس درجہ کیوں فروغ پا رہا ہے؟
اور کیا عورت کو اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے جتنی اہمیت کی وہ مستحق ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک قدر ناشناس ، بےحس معاشرے میں سماجی معاشی ، جذباتی اور نفسیاتی مسائل عورت کو ایک بہتر Option کے طور پر "خودکشی" کا راستہ دکھا رہے ہیں؟

16 جنوری 2012ء کو شائع ہوئی ایک خبر کے مطابق ایک خاتون نے اپنے نو مولود بچے کے ساتھ خود سوزی کرلی ، وہ شوہر سے جھگڑنے نے بعد مائیکہ آگئی تھی وہیں اس نے اپنے پہلے بچہ کو جنم دیا، اس کا شوہر اپنے نو زائیدہ بچے کو دیکھنے اور اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے نہیں آیا، اور اس خاتون نے افسردہ ہوکر بچے کے ساتھ جو عظیم ترین نعمت کی صورت میں اسے حاصل ہوا تھا ، زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
اس خاتون کے اس انتہائی اقدام کو حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن ہمیں اس بات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ عورت کے جذبات و احساسات بہت ہی نازک و نفیس ہوا کرتے ہیں، اس عورت کو پہلی بار ماں بننے کا شرف حاصل ہوا تھا، کیا وہ اپنے اس خوشگوار احساس کو اپنے شریک سفر کے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہے گی؟ یقیناً اس نے اپنے شوہر سے یہ امید رکھی ہوگی کہ وہ بچے کی پیدائش کی خبر سن اپنی ناراضگی بھلا دے گا اور بچے کو دیکھنے اور اس سے ملنے آئے گا، لیکن جب اس کے شوہر نے اس کی اس امید پر ضرب لگادی تو اس نے شدید مایوسی کے عالم میں بچے کے ساتھ خود سوزی کرلی۔ اگر اس کا شوہر اس کے احساسات کو یوں نظر انداز نہ کرتا اور اس سے ملنے آتا تو شاید نومولود کے ساتھ ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا۔
سفینہ عرفات فاطمہ
علمی دینی حلقوں میں پہچان رکھنے والی ہمارے شہر کی ایک قلمکارہ نے اپنا یہ تجزیہ اور احساسات پیش کئے ہیں جن سے اتفاق کیا جا سکتا ہے تو اختلاف کرنا بھی ناممکن نہیں ہے۔​
یہاں پر مجھے کچھ سوالات سجھائی دیتے ہیں۔​
عورت کے جذبات و احساسات ہر زمانے میں نازک اور نفیس رہے ہیں اور تاقیامت رہیں گے بھی۔ ماضی میں بھی ایسی سچوئشنز پیدا ہوتی رہیں مگر خودکشی جیسے سنگین حادثات اتنے پیش نہیں آتے تھے۔​
صنف نازک کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جانا قرین انصاف نہیں تو پھر وہ کون سی وجوہات ہمارے موجودہ معاشرے میں پیدا ہو گئی ہیں جن کے سبب خودکشی جیسے حرام فعل پر دل و دماغ آمادہ ہوتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر ڈالتے ہیں؟​
اگر ہم کہتے ہیں کہ صبر و برداشت کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے تو یہ معاملہ دونوں اصناف پر لاگو ہوتا ہے۔ مرد اگر سوچ لے کہ عورت اس کی بہ نسبت جذباتی و نفسیاتی سطح پر کمزور ہوتی ہے اور جذباتی شکست پر کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو سکتی ہے تو شاید خودکشی جیسے واقعات میں کمی آئے؟​
یا پھر کوئی اور بہتر حل موجود ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟​
 
یقیناً اس نے اپنے شوہر سے یہ امید رکھی ہوگی کہ وہ بچے کی پیدائش کی خبر سن اپنی ناراضگی بھلا دے گا اور بچے کو دیکھنے اور اس سے ملنے آئے گا، لیکن جب اس کے شوہر نے اس کی اس امید پر ضرب لگادی تو اس نے شدید مایوسی کے عالم میں بچے کے ساتھ خود سوزی کرلی۔ اگر اس کا شوہر اس کے احساسات کو یوں نظر انداز نہ کرتا اور اس سے ملنے آتا تو شاید نومولود کے ساتھ ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا۔
ممكن ہے وہ مسكين ڈر كے مارے نہ آيا ہو كہ جاتے ہی جھاڑ پڑے گی۔
جھگڑ كراسى گھر ميں بھی رہا جا سكتا ہے۔ عورت شوہر كى اجازت يا مرضى كے بغير گھر كيوں چھوڑتی ہے؟ صرف اسے اذيت دينے كے ليے، ہر عورت يہ بات جانتى ہے۔ خود ہی اذيت دينا اور پھر توقع كرنا كہ كوئى ردعمل نہ ہو يہ عجيب وش فل تھنكنگ ہے۔
 

زیک

مسافر
ممكن ہے وہ مسكين ڈر كے مارے نہ آيا ہو كہ جاتے ہی جھاڑ پڑے گی۔
جھگڑ كراسى گھر ميں بھی رہا جا سكتا ہے۔ عورت شوہر كى اجازت يا مرضى كے بغير گھر كيوں چھوڑتی ہے؟ صرف اسے اذيت دينے كے ليے، ہر عورت يہ بات جانتى ہے۔ خود ہی اذيت دينا اور پھر توقع كرنا كہ كوئى ردعمل نہ ہو يہ عجيب وش فل تھنكنگ ہے۔
شوہر کو چھوڑیں وہ کیسا باپ تھا کہ اس کا بچہ ہوا اور وہ دیکھنے تک ہی نہ گیا؟؟
 
Top