ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا ٭ منصور آفاق

ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا
آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا

بجھ بجھا جاتا ہے یہ بجھتی ہوئی رات کے ساتھ
دل ہمارا بھی ہے قسمت کے ستارے جیسا

کچھ کہیں ٹوٹ گیا ٹوٹ گیا ہے ہم میں
اپنا چہرہ ہے کسی درد کے مارے جیسا

لے گئی ساتھ اڑا کر جسے ساحل کی ہوا
ایک دن تھا کسی بچے کے غبارے جیسا

جا رہا ہے کسی دلہن کا جنازہ شاید
جھیل میں بہتے ہوئے سرخ شکارے جیسا

قوس در قوس کوئی گھوم رہا ہے کیا ہے
رقص کرتی کسی لڑکی کے غرارے جیسا

کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور
اک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا

منصور آفاق​
 
Top